سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
40. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الشَّقِّ
باب: صندوقی قبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1558
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ بْنِ عُبَيْدَةَ بْنِ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ طُفَيْلٍ الْمُقْرِئُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ الْقُرَشِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" لَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي اللَّحْدِ، وَالشَّقِّ، حَتَّى تَكَلَّمُوا فِي ذَلِكَ وَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمْ"، فَقَالَ عُمَرُ:" لَا تَصْخَبُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيًّا وَلَا مَيِّتًا، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، فَأَرْسَلُوا إِلَى الشَّقَّاقِ، وَاللَّاحِدِ جَمِيعًا، فَجَاءَ اللَّاحِدُ فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ دُفِنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، تو لوگوں نے بغلی اور صندوقی قبر کے سلسلے میں اختلاف کیا، یہاں تک کہ اس سلسلے میں باتیں بڑھیں، اور لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زندگی میں یا موت کے بعد شور نہ کرو، یا ایسا ہی کچھ کہا، بالآخر لوگوں نے بغلی اور صندوقی قبر بنانے والے دونوں کو بلا بھیجا، تو بغلی قبر بنانے والا پہلے آ گیا، اس نے بغلی قبر بنائی، پھر اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا گیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16246، ومصباح الزجاجة: 556) (حسن)» (متابعات وشواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبید بن طفیل مجہول اور عبد الرحمن بن أبی ملیکہ ضعیف راوی ہیں) (تراجع الألبانی: رقم: 590)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1558 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1558
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کےبحث ومباحثہ سے معلوم ہوتا ہے۔
کہ ان کی نظر میں دونوں طریقے درست تھے۔
قابل غور مسئلہ صرف یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کےلئے کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔
(2)
جب کسی معاملے میں دونوں پہلوں قریب قریب برابر ہوں۔
تو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
جس پر فریقین رضا مند ہوجایئں۔
اور اختلاف ختم ہوجائے۔
(3)
رسول اللہ ﷺ کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے پاس زور سے نہ بولا جائے۔
یہ احترام وفات کے بعد بھی قائم ہے۔
لہٰذا قبرمبارک کے قریب بلند آواز سے بات چیت یا بحث وتکرار سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(4)
۔
رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبریں مسجد نبوی ﷺسے باہر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رہائش گاہ میں بنایئں گئیں تھیں۔
بعد میں جب مسجد نبویﷺ کی توسیع ہوئی تو امہات المومنین کے حجرے بھی مسجد میں شامل ہوگئے۔
اب مسجد کے احترام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہاں بلند آوازسے بات چیت نہ کی جائے۔
لہٰذا قبر نبوی (ﷺ)
کی زیارت کرنے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہاں بلند آواز سے صلاۃ وسلام نہ پڑھیں بلکہ زیارت قبور کی مسنون دعایئں ہلکی آواز سے پڑھیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1558