سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
37. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْجُلُوسِ فِي الْمَقَابِرِ
باب: قبرستان میں بیٹھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1548
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جِنَازَةٍ فَقَعَدَ حِيَالَ الْقِبْلَةِ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں نکلے، تو آپ قبلہ کی طرف رخ کر کے بیٹھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجنائز 68 (3212)، السنة 27 (4753، 4754)، سنن النسائی/الجنائز81 (2003)، (تحفة الأشراف: 1758)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/287، 295، 297) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
يونس بن خباب ضعيف رافضي ضعفه الجمھور و الحديث الآتي (الأصل: 1549) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 434
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1548 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1548
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قبر پر پاؤں رکھ کر گزرنا منع ہے۔
اور کسی قبر پر مجاور بن کر بیٹھنا بھی منع ہے۔
لیکن قبروں کے درمیان کسی ضرورت کے تحت بیٹھنا جائز ہے۔
مثلاً قبر ابھی تیار نہیں ہوئی تو اس انتظا ر میں بیٹھ جانا درست ہے۔
(2)
نماز کے علاوہ بھی قبلے کی طرف منہ کرکے بیٹھنا بہتر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1548
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 131
´منکر نکیر کے سوال اور قبر کا عذاب`
«. . . عَن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ رَبِّيَ اللَّهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا دِينُكَ فَيَقُولُ ديني الْإِسْلَام فَيَقُولَانِ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ قَالَ فَيَقُول هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولَانِ وَمَا يُدْرِيكَ فَيَقُولُ قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ زَاد فِي حَدِيث جرير فَذَلِك قَول الله عز وَجل (يثبت الله الَّذين آمنُوا بالْقَوْل الثَّابِت) الْآيَة ثمَّ اتفقَا قَالَ فينادي مُنَاد من السَّمَاء أَن قد صدق عَبدِي فأفرشوه مِنَ الْجَنَّةِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ وألبسوه من الْجنَّة قَالَ فيأتيه من روحها وطيبها قَالَ وَيفتح لَهُ فِيهَا مد بَصَره قَالَ وَإِن الْكَافِر فَذكر مَوته قَالَ وتعاد رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي - [48] - فَيَقُولَانِ لَهُ مَا دِينُكَ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنَّ كَذَبَ فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ قَالَ فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا قَالَ وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ ثمَّ يقيض لَهُ أعمى أبكم مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ لَوْ ضُرِبَ بِهَا جبل لصار تُرَابا قَالَ فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمغْرب إِلَّا الثقلَيْن فَيصير تُرَابا قَالَ ثمَّ تُعَاد فِيهِ الرّوح» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد . . .»
”. . . سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”(قبر میں) مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس میت کو اٹھا کر بٹھا تے ہیں، دونوں اس سے دریافت کرتے ہیں کہ «من ربك؟» تمہارا رب کون ہے؟ (اگر وہ مومن ہے تو جواب میں کہتا ہے) «ربي الله» میرا رب اللہ ہے۔ پھر وہ دونوں فرشتے پوچھتے ہیں، «ما دينك» تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے «ديني الاسلام» میرا دین اسلام ہے، پھر وہ دونوں دریافت کرتے ہیں وہ کون شخص ہے جو تمہارے پاس بھیجا گیا ہے۔ وہ جواب دیتا ہے، وہ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر وہ دونوں فرشتے اس مردے سے سوال کرتے ہیں۔ ان باتوں کو تم کو کس نے بتایا؟ وہ جواب دیتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ہے، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی“، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس آیت کریمہ «يثبت الله الَّذين آمنُوا بالْقَوْل الثَّابِت» الخ کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے۔ کا یہی مطلب ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر آسمان سے پکارنے والا پکارتا ہے، میرے بندے نے سچ کہا اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو، اور اس کے لیے جنت کی طرف کھڑکی کھول دو چنانچہ جنت کی طرف سے اس کے لیےکھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے جنت کی ہوایئں اور خوشبوئیں آتی رہتی ہیں اور منتہاۓ نظر تک اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے۔“ کافر کی موت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اس کے پاس دو فرشتے آ کر اسے بٹھاتے ہیں اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے۔ ہاۓ ہاۓ میں نہیں جانتا۔ پھر وہ دونوں فرشتے دریافت کرتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے ہاۓ افسوس میں نہیں جانتا۔ پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ ان حضرت کے بارے میں کیا کہتے ہو جو تمہارے پاس بھیجے گئے تھے؟ وہ جواب دیتا ہے، ہاۓ ہاۓ میں نہیں جانتا۔ آسمان سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھا دو۔ اور آگ ہی کا لباس پہنا دو۔ اور دوزخ کی طرف اس کے لیے دروازہ کھول دو۔ چنانچہ جہنم کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے، جس سے اس کی گرم ہوایئں اور لویئں اس کے پاس آتی ہیں اور اس کے لیے اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھرکی پسلیاں ادھر نکل آتی ہیں، پھراس پر ایک اندھا، بہرا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے جس کے پاس لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر اس سے پہاڑ کو مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے۔ اس گرز سے اس مردے کافر کو مارتا ہے، جس کے چیخنے اور چلانے کی آواز مشرق سے مغرب تک انسانوں اور جنوں کے علاوہ تمام چیزیں سنتی ہیں اور اس مار سے وہ مٹی اور ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے پھر اس کی روح اس میں لوٹا دی جاتی ہے۔ (ایسا ہی عذاب قیامت ہوتا رہے گا۔)“ اس حدیث کو ابوداؤد نے رویت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 131]
تحقیق الحدیث:
یہ حدیث (آخری جملے / کے بعد کو چھوڑ کر) حسن ہے۔
اسے أحمد و ابوداود کے علاوہ نسائی [3002] ابن ماجہ [1548، 1549] ہناد بن السری [کتاب الزہد 1؍205۔ 207 ح339] اور بیہقی [اثبات عذاب القبر ح 20، بتحقیقی] وغیرہم نے مختصراً ومطولاً روایت کیا ہے۔
امام بیہقی نے فرمایا:
«هذا حديث صحيح الإسناد»
”یہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے۔“ [شعب الايمان 357/1ح 395]
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الحدیث حضرو [14 ص 22، 23]
◄ اس حدیث کے راویوں کا مختصر اور جامع تذکرہ درج ذیل ہے:
➊ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ مشہور جلیل القدر صحابی ہیں .
➋ ابوعمر زاذان الکندی الکوفی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔ دیکھئے: الحدیث [14ص24۔ 26] اور توضیح الاحکام [550/1۔ 556]
لہٰذا ان پر جرح مردود ہے اور وہ صحیح الحدیث ہیں۔
➌ منہال بن عمرو جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق ہیں،
لہٰذا ان کی حدیث صحیح یا حسن ہوتی ہے۔ دیکھئے: الحدیث [14 ص29] اور توضیح الاحکام [1؍556۔ 56۔]
➍ سلیمان بن مہران الاعمش ثقہ مدلس راوی ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ دیکھئے: سنن ابی داود [4754]
دوسرے یہ کہ سلیمان الاعمش اس روایت میں منفرد نہیں ہیں بلکہ ان کی متابعت موجود ہے۔
◄ خلاصہ یہ کہ یہ حدیث حسن لذاتہ ہے۔
اسے قرطبی، ابن قیم، ابن تیمیہ اور منذری وغیرہم نے صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔ [حاشية اثبات عذاب القبر للبيهقي ص2۔ يسر الله لنا طبعه]
↰ لہٰذا بعض منکرینِ حدیث کا اس حدیث پر جرح کرنا یا اسے قرآن مجید کے خلاف قرار دے کر رد کر دینا مر دود ہے۔
فقہ الحدیث:
➊ عذاب قبر اور ثواب قبر دونوں برحق ہیں۔
➌ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے۔
➌ قبر میں اخروی و برزخی طور پر سوال و جواب کے وقت اعادۂ روح برحق ہے اور یہ قرآن مجید کے خلاف نہیں ہے۔ قرآن جس اعادۂ روح کی نفی کرتا ہے وہ دنیاوی اعادہ ہے اور حدیث جس کا اثبات کرتی ہے اس سے مراد برزخی اعادہ ہے۔ دیکھئے: [شرح عقيده طحاويه ص399، المكتب الاسلامي، طبعه ثانيه 1984ء]
➍ شیخ ابن ابی العز الحنفی فرماتے ہیں:
«وذهب إليٰ موجب هذا الحديث جميع أهل السنة والحديث»
”تمام اہلِ سنت: اہلِ حدیث اس حدیث (یعنی حدیث براء رضی اللہ عنہ) کے قائل ہیں۔“ [شرح عقيده طحاويه ص398]
➎ تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔ نجات صرف اسی میں ہے کہ آدمی قران و حدیث اور اجماع پر سلف و صالحین کے فہم کی روشنی میں عمل کرے اسی منہج پر عقیدے کی بنیاد رکھے اور ساری زندگی تحقیق و عمل میں گزار دے۔
➏ عذاب قبر اسی دنیاوی قبر میں ہوتا ہے جسے زمین پر ارد گرد کے جانور سنتے ہیں۔
➐ اس راویت میں جو آیا ہے کہ ”پھر وہ اسے ہتھوڑے کی ایک ضرب مارتا ہے جسے انسانوں اور جنوں کے سوا مشرق و مغرب کے ہر چیز سنتی ہے، پھر وہ مٹی بن جاتا ہے، پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے“ اس خاص متن میں اعمش کے سماع کی تصریح نہیں ملی، لہٰذا یہ متن مشکوک ہے اور ساری حدیث حسن ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 131
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2003
´جنازے کے لیے کھڑے ہونے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے، جب ہم قبر کے پاس پہنچے تو وہ تیار نہیں ہوئی تھی، چنانچہ آپ بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے، گویا ہمارے سر پر پرندے بیٹھے ہوئے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2003]
اردو حاشہ:
(1) ”بیٹھ گئے۔“ گویا دفن کرنے سے پہلے بیٹھا جا سکتا ہے بشرطیکہ میت کو زمین پر رکھ دیا گیا ہو۔
(2) ”پرندے بیٹھے ہیں۔“ یہ سکون اور خاموشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کے ساتھ ساتھ موقع و محل کی مناسبت سے تھی کہ قبر بنائی جا رہی ہے، میت پاس رکھی ہے اور قبر کے کنارے بیٹھے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2003
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3212
´قبر کے پاس کس طرح بیٹھیں؟`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں نکلے، قبر پر پہنچے تو ابھی قبر کی بغل کھدی ہوئی نہ تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ بیٹھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3212]
فوائد ومسائل:
قبر کے پاس یا قبرستان میں کسی ضرورت کے تحت بیٹھ جانے میں کوئی حرج نہیں۔
اور قبلہ رو ہوکر بیٹھنا مستحب ہے۔
مگر قبر کا مجاور بن کر بیٹھنا حرام ہے۔
یاعین قبر کے اوپر بیٹھنا بھی ناجائز ہے۔
(مذید دیکھئے حدیث 3225)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3212
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1549
´قبرستان میں بیٹھنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں نکلے، جب قبر کے پاس پہنچے تو آپ بیٹھ گئے، اور ہم بھی بیٹھ گئے، گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1549]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نبی اکرم ﷺ کا انتہائی احترام کرتے تھے۔
اس لئے آپ ﷺ کی موجودگی میں بلا ضرورت بات نہیں کرتے تھے۔
(2)
قبرستان میں فضول باتیں کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(3)
سروں پر پرندے ہونے کا مطلب بہت زیادہ خاموشی سے بیٹھنا ہے۔
جیسے اگر کسی کے سر پر پرنده بیٹھ جائے اور وہ اسے پکڑنا چاہتا ہو تو وہ خاموش ہوکر بیٹھتا ہے۔
اور غیر محسوس طریقے سے حرکت کرتا ہے۔
تاکہ پرندہ اڑ نہ جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1549