Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
35. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْقِيَامِ لِلْجِنَازَةِ
باب: جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1545
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَعُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اتَّبَعَ جِنَازَةً لَمْ يَقْعُدْ حَتَّى تُوضَعَ فِي اللَّحْدِ، فَعَرَضَ لَهُ حَبْرٌ، فَقَالَ: هَكَذَا نَصْنَعُ يَا مُحَمَّدُ؟ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: خَالِفُوهُمْ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جنازے کے پیچھے چلتے تو اس وقت تک نہ بیٹھتے جب تک کہ اسے قبر میں نہ رکھ دیا جاتا، ایک یہودی عالم آپ کے سامنے آیا، اور کہا: اے محمد! ہم بھی ایسے ہی کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھنا شروع کر دیا، اور فرمایا: ان کی مخالفت کرو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الجنائز 47 (3176)، سنن الترمذی/الجنائز 35 (1020)، (تحفة الأشراف: 5076) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: 437)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جانے کا حکم دیا تھا، پھر جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ یہود بھی ایسا کرتے ہیں تو آپ نے ان کی مخالفت کا حکم دیا جس سے سابق حکم منسوخ ہو گیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (3176) ترمذي (1020)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 433

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1545 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1545  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ میت کی تدفین تک کھڑے رہنا منسوخ ہے۔
بلکہ جب میت کی چار پائی زمین پر رکھ دی جائے۔
تو ساتھ آنے والے بیٹھ سکتے ہیں۔

(2)
غیرمسلموں سے امتیاز قائم کرنا اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔
شریعت میں اس اُصول کا لحاظ عبادات میں بھی رکھا گیا ہے۔
اور دوسرے روز مرہ معاملات میں بھی، لہٰذا عیسائيوں کا بڑا دن نیا سال (یکم جنوری کو خوشی منانا)
اور ہندووں کی بسنت ہولی اور دیوالی، شادی، غمی کی رسمیں مثلاً غم کے موقع پر سیاہ لباس پہننا یا بیوہ کی دوسری شادی کو معیوب سمجھنا یا شادی کے موقع پر دولیا کا دلہن کی رشتہ دار عورتوں سے بلا تکلف ملنا اور آپس میں ہنسی مذاق کرنا۔
اور اسی طرح کے دیگر معاملات اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی وجہ سے اور غیر مسلموں کے رواج ہونے کی وجہ حرام ہیں جن سے پرہیز انتہائی ضروری ہے۔

(3)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہی روایت سنن ابی داؤد۔ (حدیث: 3176)
میں بھی مروی ہے۔
وہاں پر بھی ہمارے شیخ نے اس کو سنداًضعیف قرار دیا ہے۔
لیکن مزید لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی روایت (962)
اس سے کفایت کرتی ہے۔
لہٰذا مسئلہ اسی طرح ہے کہ بعض محققین کے نزدیک میت کودیکھ کر کھڑا ہونا منسوخ ہے۔
اور بعض کے نزدیک کھڑا ہونا مستحب ہے۔
صرف وجوب مسنوخ ہے- واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1545   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3176  
´میت کے لیے کھڑے ہونے کا مسئلہ۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے، اور جب تک جنازہ قبر میں اتار نہ دیا جاتا، بیٹھتے نہ تھے، پھر آپ کے پاس سے ایک یہودی عالم کا گزر ہوا تو اس نے کہا: ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں (اس کے بعد سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہنے لگے، اور فرمایا: (مسلمانو!) تم (بھی) بیٹھے رہو، ان کے خلاف کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3176]
فوائد ومسائل:
کفار کی مخالفت کرنے کا حکم ان کے دینی امور اور خاص قومی عادات میں ہے۔
امورعامہ وعادیہ میں نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3176