سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
32. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْقَبْرِ
باب: (مردہ دفن ہو جائے تو) قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1533
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلَ ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: كَانَتْ سَوْدَاءُ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَتُوُفِّيَتْ لَيْلًا، فَلَمَّا أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُخْبِرَ بِمَوْتِهَا، فَقَالَ:" أَلَا آذَنْتُمُونِي بِهَا؟ فَخَرَجَ بِأَصْحَابِهِ، فَوَقَفَ عَلَى قَبْرِهَا، فَكَبَّرَ عَلَيْهَا، وَالنَّاسُ خَلْفَهُ وَدَعَا لَهَا، ثُمَّ انْصَرَفَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، ایک رات اس کا انتقال ہو گیا، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے مرنے کی اطلاع دی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں نے مجھے خبر کیوں نہ دی“؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ نکلے اور اس کی قبر پر کھڑے ہو کر تکبیر کہی، اور لوگ آپ کے پیچھے تھے، آپ نے اس کے لیے دعا کی پھر آپ لوٹ آئے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4069، ومصباح الزجاجة: 545) (صحیح)» (سابقہ حدیث تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبر پر نماز جنازہ صحیح ہے، سنن ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سعد کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی، ان کے دفن پر ایک مہینہ گزر چکا تھا، نیز یہ حدیث عام ہے خواہ اس میت پر لوگ نماز جنازہ پڑھ چکے ہوں یا کسی نے نہ پڑھی ہو، ہر طرح اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھنا صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن لهيعة عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 433
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1533 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1533
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین اس کی بابت لکھتے ہیں۔
کہ مذکورہ روایت سنداً تو ضعیف ہے۔
لیکن متناً ومعناً صحیح ہے۔
دکتور بشار عواد مذید لکھتے ہیں۔
کہ اس حدیث کا متن صحیح ہے۔
کیونکہ صحیح روایات مثلا صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان سے اس کی تایئد ہوتی ہے۔
نیز سنن ابن ماجہ (حدیث 1528)
میں بھی یہی مسئلہ بیان ہوا ہے جسے ہمارے فاضل محقق نے صحیح قرار دیا ہے۔
لہٰذا مذکورہ روایت سنداً تو ضعیف ہے۔
لیکن متناً صحیح ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (سنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1533، وصحیح ابن ماجة للألبنانی، رقم: 1253)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1533