Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
29. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنَائِزِ فِي الْمَسْجِدِ
باب: نماز جنازہ مسجد میں پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1517
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَلَيْسَ لَهُ شَيْءٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز جنازہ مسجد میں پڑھے تو اس کے لیے کچھ نہیں ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الجنائز 54 (3191)، (تحفة الأشراف: 13503)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/444، 455، 505) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: 60)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: افضل یہ ہے کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر ایسی جگہ پڑھی جائے جو اس کے لئے خاص کر دی گئی ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عام طریقہ یہی تھا، البتہ اگر کوئی عذر ہو تو مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (3191)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 433

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1517 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1517  
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ روایت کی بابت حافظ ابن البر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔
کہ اس حدیث کےآخری الفاظ کی بابت اختلاف ہے۔
کسی میں فَلَاشَیْئٌ عَلَیْه کسی میں فَلَاشَیْئٌ لَه  کسی میں فَلَیْسَ لَهُ شَیْئٌ اور کسی میں لَیْسَ لَهُ أَجْرٌ کے الفاظ ہیں۔
ان الفاظ کی بابت امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ حافظ ابن عبد البر شیخ البانی اور الموسوعۃ الحدیثیہ کے محققین لکھتے ہیں۔
کہ ان میں سب سے صحیح فَلَاشَیْئٌ عَلَیْه کے الفاظ ہیں۔
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے۔
کہ اسے خاص اجر نہیں ملے گا۔
صرف نماز جنازہ کا اجر ملے گا۔
مطلق اجر کی نفی اس لئے نہیں کی جا سکتی۔
کہ صحیح حدیث سے خود رسول اللہ ﷺ کا نماز جنازہ مسجد میں پڑھنا ثابت ہے۔
علاوہ ازیں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے مسجد میں نماز جنازہ پوچھا گیا توفرمایا۔
یہ سنت ہے۔
نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد میں پڑھایا۔
اسی طرح حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ بھی کبار صحابہ کی موجودگی میں مسجد ہی میں پڑھایا تو کسی نے اختلاف نہ کیا۔
اس لئے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا البتہ مسجد سے باہر پڑھنا ا فضل اور بہتر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1517   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3191  
´مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3191]
فوائد ومسائل:
شیخ البانی نے بھی فلاشیئ علیه کےالفاظ کی بجائے فلاشیئ له کو صحیح قرار دیا ہے۔
جس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے والے کو کچھ نہیں ملے گا۔
اور اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ خاص اجر اسے نہیں ملے گا۔
صرف نماز جنازہ کا اجر ملے گا۔
مطلق اجر کی نفی اسی لئے نہیں کی جاسکتی۔
کہ صحیح حدیث سے خود رسول اللہ ﷺ کا نماز جنازہ مسجد میں پڑھنا ثابت ہے۔
اس لئے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔
البتہ مسجد سے باہر پڑھنا افضل قرار پائے گا۔
واللہ اعلم۔
(مذید تفصیل کے لئے دیکھئے۔
الصحیحة: 462/5 حدیث 2351)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3191