صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
47. بَابُ صَوْمِ الصِّبْيَانِ:
باب: بچوں کے روزہ رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1960
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ:" أَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ عَاشُورَاءَ إِلَى قُرَى الْأَنْصَارِ، مَنْ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ، وَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا فَليَصُمْ، قَالَتْ: فَكُنَّا نَصُومُهُ بَعْدُ، وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا، وَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ، أَعْطَيْنَاهُ ذَاكَ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَ الْإِفْطَارِ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے خالد بن ذکوان نے بیان کیا، ان سے ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ عاشورہ کی صبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے محلوں میں کہلا بھیجا کہ صبح جس نے کھا پی لیا ہو وہ دن کا باقی حصہ (روزہ دار کی طرح) پورے کرے اور جس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ روزے سے رہے۔ ربیع نے کہا کہ پھر بعد میں بھی (رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد) ہم اس دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں سے بھی رکھواتے تھے۔ انہیں ہم اون کا ایک کھلونا دے کر بہلائے رکھتے۔ جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو وہی دے دیتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1960 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1960
حدیث حاشیہ:
اس نشہ باز نے رمضان میں شراب پی رکھی تھی، حضرت عمر ؓ نے یہ معلوم کرکے فرمایا کہ ارے کم بخت! تو نے یہ کیا حرکت کی ہمارے تو بچے بھی روزہ دار ہیں۔
پھر آپ نے اس کو اسی کوڑے مارے اور شام کے ملک میں جلاوطن کر دیا۔
اس کو سعید بن منصور اور بغوی نے جعدیات میں نکالا ہے۔
اس واقعہ کو نقل کرنے سے حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد صرف بچوں کو روزہ رکھنے کی مشروعیت بیان کرنا ہے۔
جس کا ذکر حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا پس مناسب ہے کہ بچوں کو بھی روزہ کی عادت ڈلوائی جائے۔
حافظ ابن حجر ؓ فرماتے ہیں و في الحدیث حجة علی مشروعیة تمرین الصبیان علی الصیام کما تقدم لأن من کان في مثل السن الذي ذکر في هذا الحدیث فهو غیر مکلف۔
یعنی اس حدیث میں دلیل ہے اس با ت پر کہ بطور مشق بچوں سے روزہ رکھوانا مشروع ہے، اگرچہ اس عمر میں وہ شرع کے مکلف نہیں ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1960
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1960
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ بچے پر روزہ فرض نہیں ہے، تاہم اسے عادت ڈالنے کے لیے روزہ رکھنے کا حکم دیا جائے تاکہ عبادات اس کی گھٹی میں شامل ہو جائیں۔
بہتر یہ ہے کہ سات سال کے بچوں کو عبادات کی ترغیب دلائی جائے اور جب دس برس کے ہو جائیں تو سختی سے انہیں عبادات کا پابند کیا جائے۔
(2)
امام قرطبی نے کہا ہے:
بچوں کو کھلونے دے کر مصروف رکھنے کے عمل سے شاید رسول اللہ ﷺ آگاہ نہ ہوں کیونکہ انہیں بلاوجہ تکلیف میں مبتلا کرنا آپ کی شان رحیمی کے خلاف ہے۔
لیکن ان کی یہ بات محل نظر ہے کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت ربیع بنت معوذ ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے بچوں کو روزہ رکھواتیں اور انہیں اپنے ہمراہ مسجد میں لے جاتی تھیں۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2669(1136) (3)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ مشق کے طور پر بچوں سے روزہ رکھوانا مشروع ہے اگرچہ وہ اس عمر میں شریعت کے مکلف نہیں ہیں۔
(فتح الباري: 257/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1960