Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
27. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى ابْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذِكْرِ وَفَاتِهِ
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے کی وفات کا ذکر اور ان کی نماز جنازہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1511
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا، وَلَوْ عَاشَ لَعَتَقَتْ أَخْوَالُهُ الْقِبْطُ، وَمَا اسْتُرِقَّ قِبْطِيٌّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہو گیا، تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، اور فرمایا: جنت میں ان کے لیے ایک دایہ ہے، اور اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق اور نبی ہوتے، اور ان کے ننہال کے قبطی آزاد ہو جاتے، اور کوئی بھی قبطی غلام نہ بنایا جاتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6482، ومصباح الزجاجة: 538) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ متروک الحدیث ہے، لیکن «عتق» کے جملہ کے علاوہ بقیہ حدیث عبد اللہ بن ابی اوفی سے صحیح ہے، تراجع الألبانی: رقم: 235)

وضاحت: ۱؎: قبطی: ایک مصری قوم ہے، فرعون اسی قوم سے تھا، اور اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ہاجرہ بھی اسی قوم کی تھیں، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کی والدہ ماریہ بھی اسی قوم کی تھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة العتق

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
أبو شيبة إبراهيم بن عثمان: متروك
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 432

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1511 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1511  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کی تحقیق میں لکھتے ہیں۔
یہ جملہ اگر ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے مرفوع حدیث کے طور پر ثابت نہیں۔
البتہ صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کے قول کے طور پر صحیح ہے۔
اور مزید لکھتے ہیں کہ اس جملے (ولوعاش.......وما استرق قبطي)
 کے سوا صحیح ہے۔
نیز دکتور بشار عواد نے بھی مذکورہ روایت کے آخری جملے (لعتقت اخوانه)
کے سوا صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة: 388، 387/1، حدیث: 220 وصحیح سنن ابن ماجة، حدیث: 1236،  وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1511)

(2)
حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب فوت ہوئے تو ان کی دودھ پینے کی عمر تھی۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ شرف بخشا کہ انھوں نے جنت کی حوروں کا دودھ پیا۔
ممکن ہے کہ یہ شرف حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے مخصوص ہو اور ممکن ہے کہ اہل ایمان کے جو بچے شیر خوار فوت ہو جاتے ہیں۔
ان سب کے لئے ایسا ہو۔
بہرحال یہ غیبی امور ہیں۔
اس لئے حقیقت حال سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1511