Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
26. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الطِّفْلِ
باب: بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1508
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ، صُلِّيَ عَلَيْهِ وَوُرِثَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بچہ (پیدائش کے وقت) روئے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2708)، و قد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز 43 (1032)، سنن الدارمی/الفرائض 47 (3168) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: 236)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف
ترمذي (1532) وانظر الحديث الآتي (2750)
الربيع بن بدر: متروك
وللحديث شواهد كلھا ضعيفة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 432

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1508 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1508  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
مذکورہ روایت میں دو مسئلے بیان ہوئے ہیں۔
ایک بچے کی نماز جنازہ کا، جس کا ذکر گزشتہ روایت میں بھی ہے۔
اور ہمارے فاضل محقق نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
دوسرا مسئلہ بچے کے وارث ہونے کا ہے۔
یہ مسئلہ سنن ابن ماجہ کی ایک دوسری روایت 2751 میں بھی مروی ہے۔
جسے ہمارے فاضل محقق نے سنداً حسن قرار دیا ہے۔
لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر روایات کی رو سے قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الصحیحة، رقم: 153، 152)

(2)
پیدائش کے وقت بچے کا رونا اس کے زندہ پیدا ہونے کی علامت ہے۔
اس لئے جب وہ زندہ پیدا ہونے کے تھوڑی دیر بعد فوت ہو جائے۔
تو اس کا حکم وہی ہوگا جو طویل عرصہ تک زندہ رہ کرفوت ہونے والے کا ہوگا۔
گزشتہ حدیث کے فوائد ومیں بیان ہوچکا ہے۔
کہ جنازہ نا تمام بچے کا بھی پڑھا جائے گا۔
البتہ وراثت کےلئے شرط ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہو یعنی مردہ پیدا ہونے والا بچہ وارث نہیں ہوگا۔
اس لئے اس کی وراثت بھی تقسیم نہیں ہوگی۔
اگرچہ تخلیق مکمل ہونے پر پیدا ہواہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1508