Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
23. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْجِنَازَةِ
باب: نماز جنازہ کی دعا۔
حدیث نمبر: 1499
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ جَنَاحٍ ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَأَسْمَعُهُ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِي ذِمَّتِكَ وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَقِّ، فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ".
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے نماز جنازہ پڑھائی، تو میں آپ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سن رہا تھا: «اللهم إن فلان بن فلان في ذمتك وحبل جوارك فقه من فتنة القبر وعذاب النار وأنت أهل الوفاء والحق فاغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! فلاں بن فلاں، تیرے ذمہ میں ہے، اور تیری پناہ کی حد میں ہے، تو اسے قبر کے فتنے اور جہنم کے عذاب سے بچا لے، تو عہد اور حق پورا کرنے والا ہے، تو اسے بخش دے، اور اس پر رحم کر، بیشک تو غفور (بہت بخشنے والا) اور رحیم (رحم کرنے والا) ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الجنائز60 (3202)، (تحفة الأشراف: 17753)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/491) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1499 کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 1499  
فوائد و مسائل:
بعض لوگ نماز جنازہ کے درود میں یہ اضافہ کرتے ہیں:
«كما صليت وسلمت وباركت ورحمت .»
یہ بالکل ناجائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم نہیں دی۔ بعد میں کسی شخص نے دین میں اضافہ کرتے ہوئے یہ الفاظ گھڑے ہیں۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 250   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1499  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عذاب قبر حق ہے۔
اس لئے نبی اکرم ﷺنے میت کے لئے عذاب قبر سے پناہ کی دعا فرمائی۔
لیکن اس کا تعلق عالم غیب سے ہے۔
جس طرح ہم اللہ اور رسول ﷺ کی بتائی ہوئی دوسری بہت سی چیزوں پر بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔
اسی طرح عذاب قبر پربھی ایمان لاتے ہیں۔
کیونکہ وہ زندہ لوگوں کے حواس کی گرفت سے باہر ہے۔

(2)
قبر کا عذاب کفر وشرک کے علاوہ دوسرے گناہوں کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔
مثلاً جسم اور کپڑوں کو پیشاب سے نہ بچانا اور چغلی کھانا جیسے کہ رسول اللہ ﷺنے جب قبروں میں مدفون دو شخصوں کو عذاب ہوتے سنا تو فرمایا ان دونوں کوعذاب ہورہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑے کام کی وجہ سے نہیں ہورہا۔ (ایسا گناہ نہیں تھا جس سے بچنا بہت دشوار ہو)
ہاں ایک تو اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔
دوسرا لگائی بجھائی کرتا پھرتا تھا۔ (ایک کی بات دوسرے کو بتا کر آپس میں لڑا دیتا تھا۔) (صحیح البخاري، الوضوء، باب من الکبائر أن لا یستشر من بوله، حدیث: 216)

(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مذکورہ دعا جنازے میں بلند آواز سے پڑھی گئی تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1499   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3202  
´میت کے لیے دعا کا بیان۔`
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسلمانوں میں سے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو میں نے سنا آپ کہہ رہے تھے: «اللهم إن فلان بن فلان في ذمتك فقه فتنة القبر» اے اللہ! فلاں کا بیٹا فلاں تیری امان و پناہ میں ہے تو اسے قبر کے فتنہ (عذاب) سے بچا لے۔‏‏‏‏ عبدالرحمٰن کی روایت میں: «في ذمتك» کے بعد عبارت اس طرح ہے: «وحبل جوارك فقه من فتنة القبر وعذاب النار وأنت أهل الوفاء والحمد اللهم فاغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! وہ تیری امان میں ہے، اور تیری حفاظت میں ہے، تو اسے قبر کے فتنہ اور جہنم کے عذاب سے بچا ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3202]
فوائد ومسائل:

یہ حدیث بھی دلیل ہے کہ جنازے میں دعا بلند آواز سے پڑھی گئی تھی۔

اس دعا میں میت اور اس کے والد کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔

چاہیے کہ جنازہ کی مختلف دعایئں یاد کی جایئں اور بچوں کو یاد کرائی جایئں تاکہ یہ میت کےلئے اخلاص کے ساتھ دعا کرنے کا حق ادا ہوسکے۔

یہ دعایئں اس وقت مقبول ہوتی ہیں۔
جب میت خود اور اس کا جنازہ پڑھنے والے کماحقہ مسلمان ہوں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3202