صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
43. بَابُ مَتَى يَحِلُّ فِطْرُ الصَّائِمِ:
باب: روزہ کس وقت افطار کرے؟
حدیث نمبر: 1955
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَهُوَ صَائِمٌ فَلَمَّا غَرَبَتْ الشَّمْسُ قَالَ لِبَعْضِ الْقَوْمِ يَا فُلَانُ قُمْ فَاجْدَحْ لَنَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَمْسَيْتَ قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَوْ أَمْسَيْتَ قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا قَالَ إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَهُمْ فَشَرِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ.
ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن شیبانی نے، ان سے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (غزوہ فتح جو رمضان میں ہوا) سفر میں تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے تھے۔ جب سورج غروب ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی (بلال رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اے فلاں! میرے لیے اٹھ کے ستو گھول، انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ تھوڑی دیر اور ٹھہرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتر کر ہمارے لیے ستو گھول، اس پر انہوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ تھوڑی دیر اور ٹھہرتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی حکم دیا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول لیکن ان کا اب بھی خیال تھا کہ ابھی دن باقی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ پھر فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول چنانچہ اترے اور ستو انہوں نے گھول دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا۔ پھر فرمایا کہ جب تم یہ دیکھ لو کہ رات اس مشرق کی طرف سے آ گئی تو روزہ دار کو افطار کر لینا چاہئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1955 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1955
حدیث حاشیہ:
مخاطب حضرت بلال ؓ تھے جن کا خیال تھا کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا ہے، حالانکہ وہ غروب ہو چکا تھا۔
بہرحال خیال کے مطابق یہ کہا۔
کیوں کہ عرب میں پہاڑوں کی کثرت ہے اور ایسے علاقوں میں غروب کے بعد بھی ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی سورج باقی ہے، مگر حقیقت میں افطار کا وقت ہو گیا تھا، اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ان کو ستو گھولنے کے لیے حکم فرمایا اور روزہ کھولا گیا۔
حدیث سے ظا ہر ہوگیا کہ جب بھی غروب کا یقین ہو جائے تو روزہ کھول دینا چاہئے تاخیر کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ دوسری احادیث میں وارد ہوا ہے۔
اس حدیث سے اظہار خیال کی بھی آزادی ثابت ہوئی اگرچہ وہ خیال درست بھی نہ ہو۔
مگر ہر شخص کو حق ہے کہ اپنا خیال ظاہر کرے، بعد میں وہ خیال غلط ثابت ہو تواس پر اس کا تسلیم حق کرنا بھی ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1955
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1955
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں تین چیزوں کو روزہ افطار کرنے کے لیے مدار بنایا گیا ہے:
٭ رات کا اندھیرا مشرقی افق سے اوپر آ جائے۔
٭ جب مغربی افق سے دن چلا جائے۔
٭ جب سورج غروب ہو جائے۔
ان امور کے یقینی وقوع کے بعد روزہ افطار کرنے میں مزید دیر نہیں کرنی چاہیے۔
امام بخاری ؒ کا مقصد بھی یہی ہے کہ غروب آفتاب کے بعد مزید رات کے کسی حصے کا روزہ صحیح نہیں جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کے واقعے سے ظاہر ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنی چاہیے بشرطیکہ غروب آفتاب ہو جائے۔
احتیاط کے پیش نظر افطاری میں دیر کرنا اہل کتاب کی عادت ہے جن کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حدیث میں روزہ جلدی افطار کرنے کا یہ مطلب ہے کہ جب سورج غروب ہونا ثابت ہو جائے تو افطاری میں تاخیر نہ کی جائے۔
(فتح الباري: 251/4) (3)
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو ستو تیار کرنے کے لیے فرمایا تھا۔
چونکہ دیار عرب میں پہاڑوں کی کثرت تھی، پہاڑی علاقے میں غروب آفتاب کے بعد بھی ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی سورج باقی ہے مگر حقیقت میں وہ غروب ہو چکا ہوتا ہے۔
حضرت بلال ؓ نے بار بار اس خدشے کے پیش نظر اپنے خیال کا اظہار کیا جو حقیقت کے مطابق نہ تھا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1955