صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
42. بَابُ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ:
باب: اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں۔
حدیث نمبر: 1952
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ، صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ"، تَابَعَهُ ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرٍو، وَرَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي جَعْفَرٍ.
ہم سے محمد بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن موسیٰ ابن اعین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حارث نے، ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے، ان سے محمد بن جعفر نے کہا، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ دے، موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو ابن وہب نے بھی عمرو سے روایت کیا اور یحییٰ بن ایوب سختیانی نے بھی ابن ابی جعفر سے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1952 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1952
حدیث حاشیہ:
اہل حدیث کا مذہب باب کی حدیث پر ہے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے اور شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے۔
امام شافعی سے بیہقی نے بہ سند صحیح روایت کیا کہ جب کوئی صحیح حدیث میرے قول کے خلاف مل جائے تو اس پر عمل کرو اور میری تقلید نہ کرو، امام مالک اور ابوحنیفہ ؒ نے اس حدیث صحیح کے برخلاف یہ اختیار کیا کہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا۔
(وحیدی)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی:
مرنے والے کی طرف سے روزہ رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں دو بھید ہیں ایک میت کے اعتبار سے کیوں کہ بہت سے نفوس جو اپنے ابدان سے مفارقت کرتے ہیں ان کو اسی بات کا ادراک رہتا ہے کہ عبادت میں سے کوئی عبادت جو ان پر فرض تھی اور اس کے ترک کرنے سے ان سے مواخذہ کیا جائے گا اس سے فوت ہو گئی ہے اس لیے وہ نفوس رنج و الم کی حالت میں رہتے ہیں اور اس سبب سے ان پر وحشت کا دروازہ کھل جاتا ہے ایسے وقت میں ان پر بڑی شفقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ اس میت کا قریبی ہے اس کا سا عمل کرے اور اس بات کا قصد کرے کہ میں یہ عمل اس کی طرف سے کرتا ہوں اس شخص کی قرابتی کو مفید ثابت ہوتا ہے یا وہ شخص کوئی اور دوسرا کام مثل اسی کام کے کرتا ہے اور ایسا ہی اگر ایک شخص نے صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر وہ بغیر صدقہ کئے مر گیا تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے صدقہ کرنا چاہئے۔
(حجة اللہ البالغة)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1952
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1952
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں عليه صيام سے مراد نفل روزے نہیں بلکہ ایسے روزے ہیں جو اس پر فرض ہوں، مثلا:
٭ رمضان کے روزے۔
٭ نذر کے روزے۔
٭ کفارے کے روزے۔
اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے فرض روزے ہوں تو اس کے وارث کو ان روزوں کا اہتمام کرنا ہو گا۔
بعض روایات میں یہ اضافہ ہے:
وارث اگر چاہے تو روزے رکھے۔
لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔
(التلخیص الحبیر: 457/6)
امام بیہقی "خلافیات" میں لکھتے ہیں:
اس مسئلے میں محدثین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔
(فتح الباری: 4/246) (2)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ وارث، میت کی طرف سے روزے رکھنے کے بجائے ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔
ان کی دلیل حسب ذیل روایت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے۔
“ (سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث: 1757)
لیکن یہ روایت ضعیف ہونے کی بنا پر قابل حجت نہیں۔
(ضعیف سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث: 389)
بعض روایات میں ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی طرف سے روزہ نہ رکھے۔
(الموطأ للإمام مالك، الصیام: 279/1، حدیث: 688)
اس سے مراد عام نفل روزے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1952