Note: Copy Text and to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
195. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّلاَةِ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 1405
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مسجد میں ایک نماز پڑھنی دوسری مسجدوں میں ہزار نماز پڑھنے سے افضل ہے، سوائے مسجد الحرام کے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الحج 94 (1395)، (تحفة الأشراف: 7948)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الحج 124 (2900)، مسند احمد (2/16، 29، 53، 68، 102) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1405 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1405  
اردو حاشہ:
فائدہ:
میری اس مسجد سے مراد مسجد نبوی ﷺ کا صرف وہ حصہ نہیں جو نبی اکرمﷺ کی زندگی میں مسجد میں شامل تھا۔
بلکہ اس میں ہونے والے بعد کے تمام اضافے بھی شامل ہیں۔
کیونکہ ان اضافوں کی حیثیت الگ مسجد کی نہیں۔
اس لئے مسجد نبوی کے پُرانے یا نئے جس حصے میں بھی نماز ادا کی جائے۔
یہ ثواب حاصل ہوجائے گا۔
البتہ اگلی صفوں کی افضلیت جس طرح دوسری مساجد میں ہے وہاں بھی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1405   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2900  
´مسجد الحرام میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: میری مسجد میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی ہزار نمازوں سے افضل ہے سوائے مسجد الحرام کے ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ اس حدیث کو موسیٰ جہنی کے سوا کسی اور نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور ابن جریج وغیرہ نے ان کی مخالفت کی ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2900]
اردو حاشہ:
(1) ابن جریج کی مخالفت یہ ہے کہ انھوں نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بجائے ام المومنین حضرت میمونہؓ کی مسند بنایا ہے جیسا کہ آئندہ روایت میں ہے۔
(2) امام نسائی رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ میں نہیں جانتا… محل نظر ہے۔ عبیداللہ اور ایوب نے موسیٰ کی متابعت کی ہے۔ انھوں نے بھی اس روایت کو ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مسند بنایا ہے، اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور میمونہ رضی اللہ عنہ سے بھی، اسی لیے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں دونوں طریق سے یہ روایت نقل کی ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1395)
(3) دوسری روایات میں وضاحت ہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز عام مساجد کی ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2900