سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
194. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي فَرْضِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ وَالْمُحَافَظَةِ عَلَيْهَا
باب: پنچ وقتہ نماز کی فرضیت اور ان کو پابندی سے ادا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1399
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَرَضَ اللَّهُ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلَاةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى آتِيَ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: مَاذَا افْتَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟، قُلْتُ: فَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ رَبِّي، فَوَضَعَ عَنِّي شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَأَخْبَرْتُهُ: فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ رَبِّي، فَقَالَ:" هِيَ خَمْسٌ، وَهِيَ خَمْسُونَ، لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ"، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَقُلْتُ: قَدِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے (معراج کی رات) میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو میں انہیں لے کر لوٹا یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں میرے اوپر فرض کی ہیں، انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس پھر جائیں آپ کی امت انہیں ادا نہ کر سکے گی، میں اپنے رب کے پاس لوٹا، تو اس نے آدھی معاف کریں، میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، اور ان سے بیان کیا، انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں آپ کی امت اس کو انجام نہ دے سکے گی، چنانچہ میں پھر اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے فرمایا: یہ (ادا کرنے میں) پانچ وقت کی نمازیں (شمار میں) ہیں، جو (ثواب میں) پچاس نماز کے برابر ہیں، میرا فرمان تبدیل نہیں ہوتا، اٹل ہوتا ہے، میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس جائیں، تو میں نے کہا: اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 1 (349)، الأنبیاء 5 (3342)، صحیح مسلم/الإیمان 74 (163)، سنن النسائی/الصلاة 1 (45)، (تحفة الأشراف: 1556) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ روایت مختصر ہے، مفصل واقعہ صحیحین اور دوسری کتابوں میں مذکور ہے، اس میں یہ ہے کہ پہلی بار اللہ تعالیٰ نے پچاس میں سے پانچ نمازیں معاف کیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر بار بار اللہ تعالیٰ کے پاس جاتے رہے، اور پانچ پانچ نماز کم ہوتی رہیں یہاں تک کہ پانچ رہ گئیں، یہی عدد اللہ تعالیٰ کے علم میں مقرر تھا، اس سے کم نہیں ہو سکتا تھا، سبحان اللہ مالک کی کیا عنایت ہے، ہم ناتواں بندوں سے پانچ نمازیں تو ادا ہو نہیں سکتیں، پچاس کیونکر پڑھتے، حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رب العالمین عرش کے اوپر ہے، ورنہ بار بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس کے پاس جاتے تھے، اور اس سے جہمیہ، معتزلہ اور منکرین صفات کا رد ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کو جہت اور مکان سے منزہ و پاک جانتے ہیں، اور لطف یہ ہے کہ باوجود اس کے پھر اس کو ہر جہت اور ہر مکان میں سمجھتے ہیں، یہ حماقت نہیں تو کیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) ہر جہت اور ہر مکان میں ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتوں آسمانوں کے اوپر جانے کی کیا ضرورت تھی؟۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1399 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1399
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ حدیث واقعہ معراج کا ایک حصہ بیان کرتی ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: (صحیح البخاري، الصلاۃ، باب کیف فرضت الصلاۃ فی الإسراء، حدیث: 349)
(2)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو فرمایا آپ کی امت زیادہ نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں بنی اسرائيل سے اس قسم کا تجربہ ہوا تھا۔
کہ بنی اسرائيل نے اللہ کے حکم کے مطابق نمازیں ادا کرنے میں کوتاہی کی تھی۔ (صحیح مسلم، الإیمان، باب الإسراء برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی السمٰوات وفرض الصلوات، حدیث: 162)
(3)
پچاس نمازوں کا حکم تبدیل کرکے پانچ کردینا اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے اور مسلمانوں پر اللہ کا احسان عظیم ہے اس احسان کا شکر صرف اسی طرح ادا کیا جا سکتا ہے کہ پانچوں نمازیں پابندی سے اور پورے آداب کا لحاظ رکھ کر بروقت ادا کی جایئں۔
(4)
پانچ نمازوں کو پچاس قرار دے کر فرمایا۔
کہ میرا فرمان تبدیل نہیں ہوتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ خود اسی کا قانون ہے کہ صحیح انداز سے خلوص کے ساتھ کی ہوئی نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا لکھا جاتا ہے۔
ارشاد ہے۔
﴿مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا﴾ (الانعام: 160)
جو نیکی لے کر حاضر ہوا اس کا دس گنا (بدلہ)
ملےگا
(5)
آخری بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید تخفیف کی درخواست کرنے سے اجتناب فرمایا۔
کیونکہ پانچ پر پچاس کے ثواب کی خوشخبری میں یہ ارشاد تھا کہ اب مزید تخفیف نہیں کی جائے گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1399
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 450
´نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔`
انس بن مالک اور ابن حزم رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو میں انہیں لے کر لوٹا، تو موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا، تو انہوں نے پوچھا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: اس نے ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں، تو موسیٰ علیہ السلام نے مجھ سے کہا: جا کر اپنے رب سے پھر سے بات کیجئے، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، تو میں نے اپنے رب عزوجل سے بات کی، تو اللہ تعالیٰ نے اس میں سے آدھا ۱؎ معاف کر دیا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے کہا: اپنے رب سے پھر بات کیجئے، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، چنانچہ میں نے اپنے رب سے پھر سے بات کی، تو اس نے کہا: یہ پانچ نمازیں ہیں جو (اجر میں) پچاس (کے برابر) ہیں، میرے نزدیک فرمان بدلا نہیں جاتا، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا: اپنے رب سے جا کر پھر بات کیجئے، میں نے کہا: مجھے اپنے رب کے پاس (باربار) جانے سے شرم آ رہی ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 450]
450 ۔ اردو حاشیہ:
➊”نماز کا ایک حصہ معاف کر دیا“ عربی میں لفظ «شطر» ہے جس کے معنی نصف بھی ہیں اور ایک حصہ بھی، اس لیے دوسرے معنی اختیار کیے گئے ہیں۔ اس روایت میں بھی اختصار ہے ورنہ نمازیں پانچ پانچ کر کے کم ہوئیں۔
➋ «لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ» میں قول سے مراد کہی ہوئی بات ہے، یعنی پچاس نمازوں والا قول کہ تخفیف کے باوجود ان کا ثواب برقرار رہا۔
➌سند میں مذکور ابن حزم سے مراد ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم ہیں۔ ان کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 450
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 213
´اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر معراج کی رات پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر کم کی گئیں یہاں تک کہ (کم کرتے کرتے) پانچ کر دی گئیں۔ پھر پکار کر کہا گیا: اے محمد! میری بات اٹل ہے، تمہیں ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاس کے برابر ملے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 213]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی:
پہلے جو پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئی تھیں،
کم کر کے ان کو اگرچہ پانچ وقت کی کر دیا گیا ہے مگر ثواب وہی پچاس وقت کا رکھا گیا ہے،
ویسے بھی اللہ کے یہاں ہر نیکی کا ثواب شروع سے دس گنا سے ہوتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 213