Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
41. بَابُ الْحَائِضِ تَتْرُكُ الصَّوْمَ وَالصَّلاَةَ:
باب: حیض والی عورت نہ نماز پڑھے اور نہ روزے رکھے۔
حدیث نمبر: 1951
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدٌ، عَنْ عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ، فَذَلِكَ نُقْصَانُ دِينِهَا".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عیاض نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نماز اور روزے نہیں چھوڑ دیتی؟ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1951 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1951  
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ معیار صداقت ہماری ناقص عقل نہیں بلکہ فرمان رسالت ﷺ ہے۔
خواہ وہ بظاہر عقل کے خلاف بھی نظر آئے مگر حق و صداقت وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فرما دیا۔
اسی کو مقدم رکھنا اور عقل ناقص کو چھوڑ دینا ایمان کا تقاضا ہے ابو زناد کے قول کا بھی یہی مطلب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1951   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1951  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے یہ حدیث کتاب الحیض میں مفصل طور پر بیان کی ہے۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 304)
حضرت عائشہ ؓ کی ایک ہونہار شاگرد حضرت معاذہ نے ایک سوال اٹھایا تھا کہ حائضہ عورت نماز کی قضا کیوں نہیں دیتی؟ تو سیدہ عائشہ ؓ نے اس سے فرمایا:
تو حروریہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس طرح کے سوالات خوارج کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں جو سنن کا معارضہ عقل و رائے سے کرتے ہیں۔
گویا انہوں نے اسے تلقین فرمائی کہ اس قسم کے سوالات میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ قرآن و حدیث کے سامنے سر تسلیم ختم کر دینے ہی میں عافیت ہے۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
حضرت معاذہ نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ عورت کو بحالت طہر نمازوں کو ادا کرنا چاہیے؟ حضرت عائشہ نے فرمایا:
کیا تو حروریہ ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ہمیں حیض آتا تھا۔
آپ ہمیں ان ایام میں فوت شدہ نمازوں کو قضا کرنے کا حکم نہیں دیتے تھے۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 321) (2)
بہرحال حائضہ عورت کو رمضان کے روزے جو فوت ہو چکے ہوں، طہارت کے وقت انہیں رکھنا ہو گا لیکن نماز وغیرہ کی قضا اس کے ذمے نہیں ہے۔
(فتح الباري: 244/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1951   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2658  
2658. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تو کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف کی مانند نہیں ہے؟ عورتوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: یہی تو ان کی عقل کاناقص ہونا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2658]
حدیث حاشیہ:
جب تواللہ تعالیٰ نے دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر قراردیا۔
تمام حکماءکا اس پر اتفاق ہے کہ عورت کی خلقت بہ نسبت مرد کے ضعیف ہے۔
اس کے قویٰ دماغیہ بھی جسمانی قویٰ کے طرح مرد سے کمزور ہیں۔
اب اگر شاذونادر کوئی عورت ایسی نکل آئی کہ جس کی جسمانی یا دماغی طاقت مردوں سے زیادہ ہو تو اس سے اکثری فطری قاعدے میں کوئی خلل نہیں آسکتا۔
یہ صحیح ہے کہ تعلیم سے مرد اور عورت کے قویٰ دماغی میں اس طرح ریاضت اور کسرت سے قوائے جسمانی میں ترقی ہوسکتی ہے مگر کسی حال میں عورت کی صنف کی فضیلت مرد کے صنف پر ثابت نہیں ہوئی۔
اور جن لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ تعلیم اور ریاضت سے عورتیں مردوں پر فضیلت حاصل کرسکتی ہیں۔
یہ ان کی غلطی ہے۔
اس لیے کہ بحث نوع ذکور اور نوع نسواں میں ہے نہ کسی خاص شخص مذکر یا مؤنث میں۔
قسطلانی ؒنے کہا کہ رمضان کے چاند کی روایت میں ایک شخص کی شہادت کافی ہے اور اموال کے دعاوی میں ایک گواہ اور مدعی کی قسم پر فیصلہ ہوسکتا ہے اسی طرح اموال اور حقوق میں ایک مرد اوردو عورتوں کی شہادت پر بھی اور حدود، نکاح اور قصاص میں عورتوں کی شہادت پر جائز نہیں ہے۔
(وحیدی)
حضرت امام شافعی ؒ نے اپنی محترمہ والدہ کا واقعہ بیان کیا کہ وہ مکہ شریف کی ایک عدالت میں ایک عورت کے ساتھ پیش ہوئیں۔
تو حاکم نے امتحان کے طور پر ان کو جدا جدا کرنا چاہا۔
فوراً انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ﴿أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى﴾ (البقرة: 282)
ان دو گواہ عورتوں میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے اور یہ جدائی کی صورت میں ناممکن ہے۔
حاکم نے آپ کے استدلال کو تسلیم کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2658   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2658  
2658. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تو کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف کی مانند نہیں ہے؟ عورتوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: یہی تو ان کی عقل کاناقص ہونا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2658]
حدیث حاشیہ:
(1)
عورتوں کے معاملے میں ہمارا معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔
مغربی تہذیب سے متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ عورت زندگی کے ہر پہلو میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اہل ہے اور گواہی دینے میں مرد کے برابر حیثیت رکھتی ہے جبکہ بعض لوگ اسے پاؤں کے جوتے کی حیثیت دیتے ہیں، یعنی ان کے ہاں معاشرتی طور پر وہ کسی قسم کی گواہی دینے کے قابل نہیں ہے۔
اعتدال پر مبنی موقف یہ ہے کہ مالی معاملات اور حدود و قصاص میں اکیلی عورت کی گواہی قبول نہیں ہو گی، بلکہ ایک مرد کے مقابلے میں عورت کی نصف گواہی کا اعتبار ہو گا، البتہ عورتوں کے مخصوص معاملات، مثلاً:
حیض، ولادت، حضانت (بچوں کی پرورش)
اور رضاعت (بچوں کو دودھ پلانے)
میں اس کی گواہی قابل قبول ہو گی۔
(2)
امام بخاری ؒ اس حدیث سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2658