Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
191. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ
باب: نصف شعبان کی رات کا بیان۔
حدیث نمبر: 1388
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا، وَصُومُوا يَوْمَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ:" أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ، أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ، أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ"، أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ.
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ اس رات اللہ تعالیٰ سورج کے غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر نزول فرما لیتا ہے اور صبح صادق طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے معاف کر دوں؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ اسے رزق دوں؟ کیا کوئی (کسی بیماری یا مصیبت میں) مبتلا ہے کہ میں اسے عافیت عطا فرما دوں؟۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏(موضوع)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا أو موضوع

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده موضوع
أبو بكر ابن أبي سبرة: كان ’’يضع الحديث“ كما قال أحمد و ابن معين وغيرهما وقال ابن حجر: ’’رموه بالوضع وقال مصعب الزبيري: كان عالمًا“(تقريب: 7974): قلت:لم ينفعه علمه لأنه كان يكذب مع كونه عالمًا (!) وشيخه لا يعرف،ولعله إبراهيم بن محمد بن أبي يحيي: متروك (انظر التقريب: 241 وضعيف سنن أبي داود: 2131)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 426

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1388 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1388  
اردو حاشہ:
فائدہ:
  یہ روایت سخت ضعیف ہی نہیں بلکہ موضوع (من گھڑت)
ہے اس لئے پندرہ شعبان کے روزے کی کوئی اصل نہیں۔
اس طرح اس رات میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے آسمان دنیا پر نزول کا مسئلہ ہے جیسا کہ اس ر وایت میں اور اگلی روایت میں ہے۔
وہ بھی صحیح نہیں۔
البتہ صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر رات کو پہلے آسمان پر نزول فرماتا ہے۔
اس نزول کی کیفیت کیا ہے۔
؟ اسے ہم جان سکتے ہیں نہ بیان کرسکتے ہیں۔
تاہم اس صفت نزول پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1388