سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
179. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ
باب: تہجد (قیام اللیل) میں قرات قرآن کا بیان۔
حدیث نمبر: 1353
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" كَانَ يَمُدُّ صَوْتَهُ مَدًّا".
قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آواز کو کھینچتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 29 (5045)، سنن ابی داود/الصلاة 355 (1465)، سنن النسائی/الافتتاح 82 (1015)، (تحفة الأشراف: 1145)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/119، 127، 198، 289)، سنن الترمذی/الشمائل 43 (315) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1353 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1353
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
مطلب یہ ہے کہ جو الفاظ کھینچ کر پڑھے جا سکتے ہیں۔
انھیں کھینچ کر لمبا کرکے پڑھتے تھے مثلاً جب کسی حرف کے ساتھ الف ملا ہوا ہو یا پیش کے بعد ساکن واؤ آ رہا ہو یا زیر کے بعد ساکن یا آرہی ہو تو ان حروف کونسبتاً طویل کرکے پڑھا جائے گا۔
صرف زیر زبر اورپیش والے حرف کو کھینچ کر پڑھنا درست نہیں جب کہ ان کے بعد الف واؤ اور یاء ساکن موجود نہ ہو مثلا ﴿۔
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ﴾ میں إِنَّ یا أَعْطَیْنَ پڑھنا غلط ہے اسی طرح ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ کو فَصَلِّیْ لِرَبِّکَا پڑھنا درست نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1353
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1015
´قرأت میں آواز کھینچنے کا بیان۔`
قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا: آپ اپنی آواز خوب کھینچتے تھے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1015]
1015۔ اردو حاشیہ: یہ مطلب نہیں کہ بے جا کھینچتے تھے بلکہ جس حرف پر مد ہوتی تھی اسے لمبا کر کے پڑھتے تھے۔ مد والے حروف کو کھینچنے سے قرأت میں سکون اور ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے جسے ترتیل کہتے ہیں اور یہ ضروری ہے، اس سے قرآن کریم مں غور و فکر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ تیز تیز پڑھنا جس سے سوائے یعلمون اور تعلمون کے کچھ پتہ نہ چلے، مذموم قرأت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1015
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1465
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔`
قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مد کو کھینچتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1465]
1465. اردو حاشیہ: یعنی جن الفاظ میں مد ہے۔ ان کو مد سے اور جن میں لین ہے ان کو کو لین سے۔ مقصد یہ کہ معروف عربی لحن کے ساتھ پڑھتے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1465
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5046
5046. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے آپ سے سوال کیا گیا کہ نبی ﷺ کی قراءت کیسے تھی؟ تو انہوں نے بیان کیا کہ آپ ﷺ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ پھر آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھا یعنی بسم اللہ کو کھنیچ کر پڑ ھتے الرحمن کو مد کے ساتھ پڑھتے اور الرحیم کو بھی کھینچ کر تلاوت کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5046]
حدیث حاشیہ: 1۔
حضرت قطبہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر میں سورہ ق پڑھتے سنا، جب آپ
(لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ) پر پہنچے تو
(نَّضِيدٌ) کو کھینچ کر ادا کیا۔
(السنن الکبری للبیهقي: 54/2 و فتح الباري: 114/9) 2۔
مد کی دو قسمیں ہیں۔
۔
مد اصلی حروف مدہ کو کھینچ کر پڑھا جائے۔
۔
مد غیر اصلی:
جب حرف مدہ کے بعد ہمزہ ہو تو اس اس کی دو صورتیں ہیں۔
۔
اگر حروف مدہ کے بعد ہمزہ اسی کلمے میں ہو تو اسے مد متصل کہا جا تا ہے، جیسے
(مَآءٍ) اور سوّء
۔
اگر حرف مدہ کے بعد ہمزہ دوسرے کلمے میں ہو تو اسے مد متصل کہا جاتا ہے، جیسے
(إِلَّا أَنفُسَهُمْ) مد غیر اصلی کو خوب کھینچ کر پڑھنا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حروف مدہ کو کھینچ کر پڑھتے تھے۔
(فتح الباري: 114/9) هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5046