سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
179. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ
باب: تہجد (قیام اللیل) میں قرات قرآن کا بیان۔
حدیث نمبر: 1351
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الْأَحْنَفِ ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى، فَكَانَ إِذَا مَرَّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِآيَةِ عَذَابٍ اسْتَجَارَ، وَإِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَنْزِيهٌ لِلَّهِ سَبَّحَ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جب کسی رحمت کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کرتے، اور عذاب کی آیت آتی تو اس سے پناہ مانگتے، اور جب کوئی ایسی آیت آتی جس میں اللہ تعالیٰ کی پاکی ہوتی تو تسبیح کہتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 27 (772)، سنن ابی داود/الصلاة 151 (871)، سنن الترمذی/الصلاة 79 (262)، سنن النسائی/الافتتاح 77 (1009)، التطبیق 74 (1134)، (تحفة الأشراف: 3358)، وحم (5/382، 384، 394)، سنن الدارمی/الصلاة69 (1345) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تلاوت قرآن کے آداب میں سے یہ ہے کہ قرآن شریف سمجھ کر پڑھے، اور رحمت اور وعدوں کی آیتوں پر دعا کرے، اور عذاب و وعید کی آیتوں پر استغفار کرے، اور اللہ کی پناہ مانگے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1351 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1351
اردو حاشہ:
فوئد و مسائل:
(1)
قراءت قرآن انتہائی غور وفکر سے کرنی چاہیے۔
خواہ نماز کے دوران میں ہو یا اس کے علاوہ-
(2)
تلاوت قرآن کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ رحمت کی آیات پر دعا اور آیات عذاب پر تعوذ کیا جائے۔
اور یہ تبھی ممکن ہے جب اس کا ترجمہ اور مفہوم آتا ہو۔
ہمارے ہاں مساجد میں امام کی قراءت کے دوران میں مقتدی بلند آواز سے ان آیات کا جواب دیتے ہیں۔
جو کہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔
لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(3)
اللہ کی تسبیح کا طریقہ یہ ہے کہ سبحان اللہ کہا جائے۔
یعنی اللہ پاک ہے عذاب کی آیت پر (اللهم أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ)
”اے اللہ! مجھے آگ (کے عذاب)
سے پناہ دے۔“
یا ایسی کوئی مناسب دعا پڑھی جاسکتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1351
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1009
´قاری کا عذاب سے متعلق آیت پر گزر ہو تو اللہ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں نماز پڑھی، تو آپ نے قرأت کی، آپ جب کسی عذاب کی آیت سے گزرتے تو تھوڑی دیر ٹھہرتے، اور پناہ مانگتے، اور جب کسی رحمت کی آیت سے گزرتے تو دعا کرتے ۱؎، اور رکوع میں «سبحان ربي العظيم» کہتے، اور سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» کہتے تھے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1009]
1009۔ اردو حاشیہ: قرآن مجید پڑھتے وقت انسان میں جذب کی کیفیت ہونی چاہیے کہ قرآن کا ہر لفظ اس پر اثر کرے۔ اس کیفیت سے پڑھنے والا انسان لازماً وہی کرے گا جواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بیان کیا گیا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ رحمت کی آیت سے گزر جائے اور رحمت طلب نہ کرے یا عذاب کا ذکر پڑھے اور عذاب سے بچاؤ کی درخواست نہ کرے۔ قرآن کا اثر ہونا لازمی امر ہے۔ اس کیفیت کو صرف نفل نماز سے خاص کرنا احناف کی زیادتی ہے۔ کیا فرض نماز میں خشوع خضوع ممنوع ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ نوافل سے زیادہ مطلوب ہے، اس لیے فرائض میں بھی آیت عذاب یا رحمت پڑھتے وقت عذاب سے پناہ اور رحمت کی التجا کرنا مستحسن امر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1009
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1146
´دونوں سجدوں کے درمیان کی دعا کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ کے پہلو میں جا کر کھڑے ہو گئے، آپ نے «اللہ أكبر ذو الملكوت والجبروت والكبرياء والعظمة» کہا، پھر آپ نے سورۃ البقرہ پڑھی، پھر رکوع کیا، آپ کا رکوع تقریباً آپ کے قیام کے برابر رہا، اور آپ نے رکوع میں: «سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم» کہا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا تو: «لربي الحمد لربي الحمد» کہا، اور آپ اپنے سجدہ میں «سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى» اور دونوں سجدوں کے درمیان «رب اغفر لي رب اغفر لي» کہتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1146]
1146۔ اردو حاشیہ: دو سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْ لِي، رَبِّ اغْفِرْ لِي پڑھنا بھی صحیح ہے بلکہ عام معروف دعا سے سند کے اعتبار سے یہ زیادہ قوی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1146