سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
176. . بَابٌ في حُسْنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ
باب: قرآن مجید کو اچھی آواز سے پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1342
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ الْيَامِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْسَجَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ يُحَدِّثُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 355 (1468)، سنن النسائی/الافتتاح 83 (1016)، (تحفة الأشراف: 1775)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التوحید 52 تعلیقًا، مسند احمد (4/283، 285، 304)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 34 (3543) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: خطابی وغیرہ نے اس کا ایک مفہوم یہ بتایا ہے کہ قرآن کے ذریعہ اپنی آواز کو زینت دو، یعنی اپنی آوازوں کو قرآن کی تلاوت میں مشغول رکھو، اس مفہوم کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں «زينوا أصواتكم بالقرآن» کے الفاظ ہیں، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ موسیقی کی طرح آواز نکالو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1342 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1342
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قرآن مجید کو اچھی آواز کے ساتھ تلاوت کرنا چاہیے۔
(2)
قرآن کی اچھے طریقے سے تلاوت کا مطلب یہ ہے کہ حروف کوصحیح مخارج سے ادا کیا جائے۔
اعراب اور مد وغیرہ کی غلطی سے اجتناب کیاجائے۔
معنی اور مفہوم کو پیش نظر رکھ کر متناسب زیرو بم سے تلاوت کی جائے۔
موسیقی کو اصولوں کو قرآن پر لاگو کرنے کی کوشش کرنا درست نہیں۔
نہ آوازکے ساتھ قرآن کو مزین کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ تلاوت قرآن میں ساز وموسیقی کے اصول استعمال کیے جایئں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1342
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1017
´خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم قرآن کو اپنی آواز سے مزین کرو۔“ عبدالرحمٰن بن عوسجہ کہتے ہیں: میں اس جملے «زينوا القرآن» کو بھول گیا تھا یہاں تک کہ مجھے ضحاک بن مزاحم نے یاد دلایا۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1017]
1017۔ اردو حاشیہ: قرآن مجید کو توجہ، تصحیح اور حضور قلب سے پڑھنا کہ قاری اور سامعین پر اس کا مثبت اثر ہو، شریعت کا مطلوب ہے، البتہ گانے کا انداز نہ ہو، یعنی ساز کی بجائے سوز ہو۔ پڑھنے اور سننے والے پر خشیت الٰہی طاری ہو۔ دونوں کو رونا آئے نہ کہ طرب کی کیفیت پیدا ہو اور واہ واہ کے نعرے بلند ہوں۔ ریاکاری اور تحسین کے لیے پڑھنا موجب عذاب ہے۔ أعاذنا اللہ منه۔ اگر خوبصورت کلام کو پرسوز اور اچھی آواز سے پڑھا جائے تو یہ چیز کلام کے حسن کو مزید چار چاند لگا دیتی ہے جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کریم کو اپنی آوازوں کے ساتھ خوبصورت بناؤ، اس لیے کہ خوبصورت آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔“ [سلسلة الأحادیث الصحیحة: 401/2، حدیث: 771]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1017
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1468
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کو اپنی آواز سے زینت دو ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1468]
1468. اردو حاشیہ: عمدہ آواز اور مشروع لحن سے قرآن پڑھنے میں لذت آتی ہے۔ اور سننے میں دل لگتا ہے۔ اور اس کے برعکس اگر آواز بھدی اور لحن اور غیر مشروع ہو تو طبیعت میں گرانی محسوس ہوتی ہے۔ علامہ منذری اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں۔ کہ اس میں مقلوب ترکیب (علم بیان کی ایک صفت کا نام ہے۔ کہ جس کی عبارت الٹی سیدھی جس طرح بھی پڑھی جائے مفہوم وہی رہے۔) استعمال ہوئی ہے۔ اور اصل یہ ہے کہ اپنی آواز کو قرآن سے زینت دو۔ یعنی اس کی قراءت کو اپنا معمول وشعار بنا لو۔ اس مفہوم میں وہ ایک روایت بھی لائے ہیں۔ (تفصیل کےلئے دیکھئے عون المعبود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1468