Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
142. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ
باب: مرض الموت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 1234
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ مِنْ كِتَابِهِ فِي بَيْتِهِ، قَالَ سَلَمَةُ بْنُ نُبَيْطٍ : أَنْبَأَنَا، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ نُبَيْطِ بْنِ شَرِيطٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ ، قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:" أَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ:" أَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ:" أَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِيفٌ، فَإِذَا قَامَ ذَلِكَ الْمَقَامَ يَبْكِي لَا يَسْتَطِيعُ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَهُ، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ:" مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ أَوْ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ"، قَالَ: فَأُمِرَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ، وَأُمِرَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ خِفَّةً، فَقَالَ:" انْظُرُوا لِي مَنْ أَتَّكِئُ عَلَيْهِ"، فَجَاءَتْ بَرِيرَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ فَاتَّكَأَ عَلَيْهِمَا، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَنْكِصَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنِ اثْبُتْ مَكَانَكَ،" ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى قَضَى أَبُو بَكْرٍ صَلَاتَهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَمْ يُحَدِّثْ بِهِ غَيْرُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ.
سالم بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض الموت میں بے ہوشی طاری ہوئی، پھر ہوش میں آئے، تو آپ نے پوچھا: کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، پھر آپ پر بے ہوشی طاری ہوئی، پھر ہوش آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں پھر آپ پر بے ہوشی طاری ہوئی، پھر ہوش آیا، تو فرمایا: کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے والد نرم دل آدمی ہیں، جب اس جگہ پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے، نماز نہ پڑھا سکیں گے، اگر آپ ان کے علاوہ کسی اور کو حکم دیتے (تو بہتر ہوتا)! پھر آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر ہوش آیا، تو فرمایا: بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں، اور ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ والیوں جیسی ہو بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا، تو انہوں نے اذان دی، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو فرمایا: دیکھو کسی کو لاؤ جس پر میں ٹیک دے کر (مسجد جا سکوں) بریرہ رضی اللہ عنہا اور ایک شخص آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر ٹیک لگایا، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی آمد محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ گئے یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی نماز پوری کی، پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے، نصر بن علی کے علاوہ کسی اور نے اس کو روایت نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3787، ومصباح الزجاجة: 433) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1234 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1234  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں نماز باجماعت کی اہمیت اس قدر تھی۔
کہ ہوش آتے ہی سب سے پہلے نماز کے متعلق دریافت فرماتے تھے۔

(2)
یہ حضر ت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت ہے۔
کہ تمام صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کی موجودگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام مقرر فرمایا۔

(3)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے اسی واقعہ سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امامت کبریٰ (خلافت)
کے منصب پرفائز کیا۔

(4)
امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اصرار کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں فرمایا۔
اس لئے قائد کو چاہیے کہ جوفیصلہ اسےدلائل کی روشنی میں بہتر اور صحیح محسوس ہو اس پر پختگی سے قائم رہے۔
اپنے ساتھیوں کے اصرار سے فیصلہ تبدیل نہ کردے۔

(5)
ضرورت کے موقع پراجنبی عورت سے مناسب خدمت لی جا سکتی ہے جبکہ غلط فہمی پیدا ہونے اور نامناسب نتائج نکلنے کا اندیشہ نہ ہو۔
حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خرید کرآذاد کردیا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں وہ آزاد تھیں۔

(6)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دے کر مسجد لانے والوں کی بابت مختلف روایتوں میں مختلف نام مذکور ہیں۔
مذکورہ روایت میں حضرت بریرۃ اور ایک آدمی کا ذکرہے۔
جبکہ صحیح بخاری میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہے۔
ان دونوں ر وایتوں کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ ان کے درمیان اس طرح تطبیق دیتے ہیں۔
کہ حضرت بریرۃرضی اللہ تعالیٰ عنہا اور نا معلوم آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوگھر سے مسجد تک اور اس سے آگے نماز کی جگہ تک حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لے آئے۔
یا پھر دو الگ الگ واقعات پر محمول ہے واللہ أعلم۔
 تفصیل کے لئے دیکھئے: (فتح الباری 201/2، حدیث: 665)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1234