Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
31. بَابُ الْمُجَامِعِ فِي رَمَضَانَ هَلْ يُطْعِمُ أَهْلَهُ مِنَ الْكَفَّارَةِ إِذَا كَانُوا مَحَاوِيجَ:
باب: رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ قصداً ہمبستر ہونے والا شخص کیا کرے؟
حدیث نمبر: 1937
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ الْأَخِرَ وَقَعَ عَلَى امْرَأَتِهِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: أَتَجِدُ مَا تُحَرِّرُ رَقَبَةً؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَتَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَتَجِدُ مَا تُطْعِمُ بِهِ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ وَهُوَ الزَّبِيلُ، قَالَ: أَطْعِمْ هَذَا عَنْكَ، قَالَ: عَلَى أَحْوَجَ مِنَّا مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا، أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا، قَالَ: فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ بدنصیب رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ ایک غلام آزاد کر سکو؟ اس نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کیا تم پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اندر اتنی طاقت ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟ اب بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ راوی نے بیان کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک تھیلا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں «عرق» زنبیل کو کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جا اور اپنی طرف سے (محتاجوں کو) کھلا دے، اس شخص نے کہا میں اپنے سے بھی زیادہ محتاج کو حالانکہ دو میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں آپ نے فرمایا کہ پھر جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1937 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1937  
حدیث حاشیہ:
اس سے بعض نے یہ نکالا کہ مفلس پر سے کفارہ ساقط ہو جاتا ہے اور جمہور کے نزدیک مفلسی کی وجہ سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا، اب رہا اپنے گھر والوں کو کھلانا تو زہری نے کہا یہ اس مرد کے ساتھ خاص تھا بعض نے کہا یہ حدیث منسوخ ہے اب اس میں اختلاف ہے کہ جس روزے کا کفارہ دے اس کی قضا بھی لازم ہے یا نہیں۔
شافعی اور اکثر علماءکے نزدیک قضاء لازم نہیں اور اوزاعی نے کہا اگر کفارہ میں دو مہینے کے روزے رکھے تب قضا لازم نہیں۔
دوسرا کوئی کفارہ دے تو قضا لازم ہے اور حنفیہ کے نزدیک ہر حال میں قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1937   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1937  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان اور اس سے پہلے عنوان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پہلے عنوان سے مقصود یہ تھا کہ مفلسی اور تنگ دستی سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا اور اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ کیا مفلس کو اس صدقے کے مال سے کفارے کے طور پر تصرف کرنے کا حق ہے یا عام صدقے کے اعتبار سے؟ ہمارے نزدیک اسے بعد میں کفارہ دینا ہو گا اور اس مال میں تصرف صدقے کے اعتبار سے ہے۔
(2)
اس میں اختلاف ہے کہ ایسے انسان کو کفارے کے ساتھ خراب کردہ روزے کی قضا دینی ہو گی یا نہیں، امام شافعی اور اکثر علماء کے نزدیک قضا ضروری نہیں۔
امام اوزاعی نے کہا ہے:
اگر کفارے میں دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے تو قضا ضروری نہیں اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا کفارہ دے تو قضا لازم ہے، البتہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:
ایک دن کا روزہ بھی رکھو۔
اگرچہ انفرادی طور پر ان روایات میں کمزوری ہے لیکن اجتماعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل ضرور ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 220/4)
سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:
اس کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھو۔
(سنن ابن ماجة، الصوم، حدیث: 1671)
سنن ابی داود کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
ایک دن کا روزہ رکھو اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔
(سنن أبي داود، الصوم، حدیث: 2393)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران روزہ میں جماع کرنے سے کفارہ اور قضا دونوں لازم ہیں۔
(3)
روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب وہ آدمی آیا تو اپنے بال نوچ رہا تھا اور سینہ کوبی کر رہا تھا، نیز وہ اپنے سر پر مٹی بھی ڈال رہا تھا اور اپنے رخسار پیٹ رہا تھا۔
یہ تمام افعال شدت ندامت کی وجہ سے تھے، اس کے علاوہ مصیبت کے وقت بال نوچنے اور رخسار پیٹنے کی ممانعت ہے۔
(فتح الباري: 210/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1937   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 261  
´قصداً (جان بوجھ کر) روزہ توڑنے کا کفارہ`
«. . . ان رجلا افطر فى رمضان فى زمان النبى صلى الله عليه وسلم فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يكفر بعتق رقبة او صيام شهرين متتابعين او إطعام ستين مسكينا، فقال: لا اجد، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرق تمر، فقال: خذ هذا فتصدق به. فقال: يا رسول الله، ما احد احوج إليه مني، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت انيابه ثم قال: كله. . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے (اپنی بیوی کے ساتھ، دن میں جماع کرنے کی وجہ سے) روزہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ ایک غلام آزاد کرے یا دو مہینوں کے لگاتار روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اس نے کہا: میں یہ نہیں کر سکتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: یہ لے لو اور اسے صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ (مدینے میں) کوئی ضرورت مند نہیں ہے جو اس کا محتاج ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے حتی کہ آپ کے دندان مبارک نظر آنے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے کھا لو۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 261]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 111/83، من حديث ما لك به ورواه البخاري 1936، من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ توڑ دے تو اس کے بارے میں ابوالشعثاء جابر بن زید اور سعید بن جبیر نے فرمایا: وہ اس کے بدلے میں ایک روزہ رکھے گا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 105/3ح 9775 وسنده صحیح، وطبعه جديدہ 110/3 ح 12576،، وسنده صحیح]
● ابراہیم نخعی نے کہا:
وہ ایک روزہ رکھے اور اللہ سے معافی مانگے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 12577 وسنده صحيح]
➋ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمداً روزہ توڑنے والا ایک روزے کے بدلے میں دو مہینے روزے رکھے گا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 30   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 549  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول! میں ہلاک ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کس چیز نے تجھے ہلاک کیا؟ اس نے کہا میں رمضان میں اپنی عورت سے مباشرت کر بیٹھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھ میں اتنی طاقت ہے کہ ایک گردن کو آزاد کر دے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ دو ماہ کے متواتر روزے رکھے؟ اس نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے پاس اتنا مال ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکے؟ اس نے کہا نہیں۔ پھر وہ بیٹھ گیا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو خیرات کر دو۔ اس نے کہا کیا اپنے سے زیادہ محتاج پر (خیرات کروں)؟ کیونکہ دو سنگلاخ پہاڑوں (مدینہ) کے مابین کوئی گھر والا ہم سے زیادہ محتاج نہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہو گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اسے اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔ اسے ساتوں نے روایت کیا ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 549]
لغوی تشریح 549:
جَاءَ رَجُلٌ ایک آدمی آیا۔ اس شخص کا نام سلمان یا سلمہ بن صخر بیاضی تھا۔
وَقَعتُ عَلَی امرَأَتِی میں اپنی بیوی پر واقع ہو گیا، یعنی جماع کر لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث میں ہے کہ اس آدمی نے کہا: میں نے اس سے وطی کی ہے۔ اور اس کا یہ کہنا کہ ھَلَکتُ میں ہلاک ہو گیا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ روزے کی حالت میں بیوی سے جماع کرنے کی حرمت سے باخبر تھا اور اسنے عمدًا یہ حرکت کی، اس لیے اس حدیث سے اس شخص کے متعلق استنباط نہیں کیا جا سکتا جس نے بھول کر جماع کیا ہو۔ ٘ رَقَبَۃٌ غلام یا لونڈی۔ یہ ٘ مَا تُعتِقُ میں مَا کا بدل ہونے کیوجہ سے منصوب ہے۔
فَأُتِیَ صیغۂ مجہول ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔
بِعَرَقٍ عین اور را دونوں پر فتحہ ہے۔ بڑا ٹوکرا۔
فِیہِ تَمرٌ جس میں پندرہ صاع، یعنی ساٹھ مد کھجوریں تھیں۔
أعَلٰی أَفقَرَ أَعَلٰی میں ھمزہ استفہام ہے اور علی حرفِ جر ہے، یعنی کیا میں ایسے شخص پر صدقہ کروں جو مجھ سے اور میرے گھر والوں سے بھی زیادہ محتاج ہو؟
فَمَا بَینَ لَابَتَیھَا میں لَابَتَیھَا، لَابَۃ کا تثنیہ ہے اور با پر فتحہ ہے، یعنی وہ زمین جس میں سیاہ بوسیدہ پتھر ہوں، یوں محسوس ہوکہ جیسے اسے آگ نے جلایا ہو۔ اور ھَا کی ضمیر مدینہ طیبہ کیطرف راجع ہے۔ اور لَابَتَان سے دو مشہور و معروف حرے مراد ہیں جو مدینہ طیبہ کے شرقی اور غربی جانب ہیِں۔ ایک کا نام حَرَّۃُ الوَاقِم اور دوسرے کا حَرَّۃُ الوَبرَہ ہے۔ اور مدینہ طیبہ ان دونوں کے درمیان واقع ہے، لہٰذا لَابَتَینَ سے مراد مدینہ منورہ ہے، یعنی مدینہ میں کوئی اہلِ خانہ مجھ سے زیادہ ان کھجوروں کا محتاج نہیں۔
أَنیَابُہُ یہ نَابٌ کی جمع ہے۔ اور یہ وہ دانت ہوتے ہیں جو رباعی کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ اور رباعی، ثنایہ کے ساتھ والے دانتوں کو کہتے ہیں۔ اور ثنایا کا اطلاق اوپر اور نیچے کے سامنے والے دو دو دانتوں پر ہوتا ہے۔ ٘ أَطعِمہُ، أَھلَکَ یہ اپنے گھر والوں کو کھلاؤ۔

فوائد و مسائل 549:
➊ اس حدیث سے امام اوزاعی رحمہ اللہ اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ تنگ دست پر کفارہ نہیں۔ مگر امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ، امام ثوری اور امام ابوثور رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے یہ استدلال درست نہیں، کفارہ جب میسر بہرنوع ادا کیا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کفارے کا ذکر کیا۔ تنگدستی کی بنا پر کھجوریں اسے بطورِ صدقہ کے دیں، کفارہ کے طور پر نہیں۔ اس حدیث میں قطعًا ذکر نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کفارے کو ساقط قرار دیا ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں جو کفارے کے سقوط کا ذکر ہے وہ سخت ضعیف اور ناقابلِ استدلال ہے۔
➋ اس حدیث میں گو روزے کی قضا ادا کرنے کا حکم نہیں مگر دوسری احادیث میں قضا کا حکم موجود ہے جیسا کہ سنن ابنِ ماجہ کی روایت میں ہے: ٘ وَصُم یَومًا مَکَانَہُ اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لینا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس جملے کی بابت لکھتے ہیں کہ اس روایت کے تمام طرق سامنے رکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ دیکھیے: [ أرواء الغليل: 93-88/4، رقم: 939]
اس بنا پر ائمہ اربعہ اور جمھور علماء ایسی صورت میں مردوزن دونوں کے لیے روزہ رکھنے کے قائل ہیں۔ اور احتیاط اور تقویٰ اسی میں ہے کہ جو روزہ توڑا گیا ہے اس کے بدلے میں روزہ رکھ کر مہینے کی تعداد پوری کی جائے، تاہم اگر عورت روزہ دار نہ ہو تو اس پر قضا نہیں۔
➌ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے کہ بعض علماء نے اس حدیث پر دو جلدوں میں بحث کی ہے اور اس سے ایک ہزار فوائد و مسائل کا استنباط کیا ہے۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 549   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2392  
´رمضان میں بیوی سے جماع کے کفارہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رمضان میں روزہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک غلام آزاد کرنے، یا دو مہینے کا مسلسل روزے رکھنے، یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم فرمایا، وہ شخص کہنے لگا کہ میں تو (ان میں سے) کچھ نہیں پاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: بیٹھ جاؤ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک تھیلا آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں لے لو اور صدقہ کر دو، وہ کہنے لگا: اللہ کے رسول! مجھ سے زیادہ ضرورت مند تو کوئی ہے ہی نہیں، اس پر آپ صلی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2392]
فوائد ومسائل:
(1) رمضان کے دن میں جماع کرنے سے مندرجہ بالا تین کفارات میں سے ترتیب وار ایک لازم آتا ہے۔
یعنی اولا گردن آزاد کرنا، یہ نہ ہو سکے تو دو ماہ کے متواتر روزے رکھنا اور یہ بھی نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔
اور استغفار سے کسی صورت غافل نہ ہو۔
اور جمہور علماء کا کہنا ہے کہ یہ کفارہ صرف جماع کی بنا پر آتا ہے نہ کہ کسی اور صورت میں روزہ توڑنے پر۔
جبکہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیھم اور ان کے اصحاب کسی بھی صورت میں روزہ توڑنے پر مذکورہ کفارہ واجب کرتے ہیں۔

(2) یہ کفارہ ادا کرنے میں ترتیب کا لحاظ رکھا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کے عذر پر دوسرا اور پھر تیسرا کفارہ بتایا ہے۔

(3) مساکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں ساٹھ کا عدد پورا کیا جائے، نہ کہ چند مساکین کو مختلف اوقات میں کھلا کر عدد پورا کرے۔

(4) اس واقعہ میں علماء کا اختلاف ہے۔
ایک جماعت کا رجحان ہے کہ مذکورہ صحابی کو فقر کی بنا پر کفارہ معاف فرما دیا تھا جبکہ دیگر کہتے ہیں کہ کفارہ کو وسعت پانے تک مؤخر کیا گیا تھا، بالکل معاف نہیں فرمایا تھا۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2392   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1671  
´رمضان کا کوئی روزہ چھوڑنے کا کفارہ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اس نے عرض کیا: میں ہلاک ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس چیز نے ہلاک کر دیا؟ اس نے کہا: میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایک غلام آزاد کرو، اس نے کہا: میرے پاس غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو دو مہینے لگاتار روزے رکھو، اس نے کہا: میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اس نے کہا: مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1671]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
روزے کی حالت میں جان بوجھ کر مباشرت کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
اور کفارہ بھی لازم ہوجاتا ہے۔

(2)
کفارے کی مقدارایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے۔
اگر اس کی طاقت نہ ہو یا غلام دستیاب نہ ہو۔
تو مسلسل د و ماہ روزے رکھے یہ بھی نہ ہوسکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے
(3)
جوشخص کسی بھی طرح کفارہ نہ ادا کرسکتا ہو۔
اس سے کفارہ ساقط ہوجاتا ہے۔
کیونکہ اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا کہ فی الحال یہ کھجوریں تم خود کھا لو بعد میں کفارہ ادا کردینا۔

(4)
اگر کسی مفلس آدمی پر کسی شرعی غلطی کی وجہ سے کفارہ لازم آجائے تو مسلمانوں سے چاہیے کہ اس سے تعاون کریں تا کہ وہ کفارہ ادا کرسکیں۔

(5)
جوشخص اپنی غلطی پر پشیمان ہو۔
اسے مزید شرمندہ کرنے کی بجائے اس پر شفقت کا اظہار کرنا چاہیے۔
اور اس کے مسئلے کا شرعی حل پیش کرنا چاہیے۔
حدیث میں مذکور شخص کی پریشانی تو اس کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس نے کہا (هلكت)
میں تو برباد ہوگیا ہوں۔
اس کی کیفیت ایک اور روایت میں زیادہ واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ایک اعرابی آیا وہ چہرا پیٹ رہا تھا۔
اور بال کھسوٹ رہا تھا۔
اور کہہ رہا تھا میں تو برباد ہی ہو گیا ہوں۔
۔
۔ (مسند أحمد: 516/2)

(6)
اس ٹوکرے میں کتنی کھجوریں تھیں۔
؟ اس کے بارے میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے۔
کہ ان کی مقدار پندرہ اور بیس صاع کے درمیان تھی۔ (موطأإمام مالك، الصیام، باب کفارة من أفطرفی رمضان 1/274، حدیث: 673)
سنن ابو داؤد میں بھی ایک روایت میں پندرہ صاع اور دوسری روایت میں بیس صاع مروی ہے۔ (سنن ابو داؤدں الصیام، باب کفارة من أتی أهله فی رمضان، حدیث: 295)
 اس کی مقدار اندازاً ایک من بنتی ہے۔

(7) (وَصُمْ يَوْماً مَكَانَهُ)
اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لینا اس جملے کے بارے میں محمد فواد عبد الباقی نے لکھا ہے کہ اس سند میں ایک راوی عبد الجبار بن عمر ہے۔
جو ضعیف ہے۔
لیکن شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس جملے کی بابت إرواء الغلیل میں تفصیلاً بحث کی ہے۔
اور آخر میں یوں لکھا ہے کہ (وَبِمَجْمُوع هٰذِهِ الطُّرُق تعرف أنَّ لهٰذِهِ الزَّيَادَةِ اصلا)
 یعنی اس روایت کے تمام طرق کو سامنے رکھا جائے۔
تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جملے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (إرواءالغلیل: 93، 88/4،   رقم: 939)
 لہٰذا احتیاط اور تقویٰ اسی میں ہے۔
کہ جو روزہ توڑا گیا ہے۔
اس کے بدلے روزہ رکھ کر ہی مہینے کے روزوں کی تعداد پوری کی جا سکتی ہے۔

(8)
مذکورہ کفارہ صرف جماع کی صورت میں ہی لازم آتا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں یہ لازم نہیں آتا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب کسی بھی صورت میں روزہ توڑ دینے پر کفارہ لازم گردانتے ہیں۔
جبکہ دیگر ائمہ مذکورہ کفارہ صرف جماع سے خاص گردانتے ہیں۔
یہی موقف زیادہ راحج معلوم ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں شیخ ابن العثمین رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ کفارے کے ساتھ اسے روزے کی قضا بھی دینا ہوگی۔ (دیکھیے فتاویٰ اسلامیہ (اردو)
۔ 2/191 مطبوعہ دارالسلام)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1671   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1038  
1038- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! میں ہلاکت کا شکار ہوگیا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ اس نے عرض کی: میں نے رمضان (میں روزے کے دوران) اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرلی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا: کیا تم غلام آزاد کرسکتے ہو؟ اس نے عرض کی: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا تم مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کی: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1038]
فائدہ:
اس حدیث میں روزے کی حالت میں بیوی سے صحبت کرنے کے کفارے کا ذکر ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو شخص واقعی کفارہ ادا نہ کر سکے، اس میں طاقت ہی نہ ہو تو اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص بھی کفارہ ادا کر سکتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1037   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5368  
5368. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا: میں تو ہلاک ہو گیا ہوں آپ نے فرمایا: کیوں کیا ہوا؟ اس نے کہا میں نے اپنی بیوی سے رمضان میں ہم بستری کرلی ہے آپ نے فرمایا: پھر ایک غلام آزاد کر دو۔ اس نے کہا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔ اس نے کہا: مجھ میں اس کی بھی طاقت نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ۔ اس نے کہا: میں اتنا سامان نہیں پاتا۔ اس دوران میں نبی ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا تو آپ نے پوچھا: سوال کرنے والا کہاں ہے؟ عرض کیا: میں یہاں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: یہ کھجوروں کا ٹوکرا صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! جو ہم سے زیادہ محتاج ہیں ان پر صدقہ کروں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5368]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں یوں ہے تو بھی کھا اوراپنے گھر والوں کو بھی کھلا تو آپ نے کفارے کی ادائیگی پر اس کے گھر والوں کا کھانا مقدم سمجھا یا اس شخص نے کفارہ کے وجوب کے ساتھ اپنے گھر والوں کے خرچ کا اہتمام کیا اور ان کی محتاجی ظاہر کی۔
اگر گھر والوں کو کھانا ضروری نہ ہوتا تو وہ اس کھجور کو خیرات کرنا مقدم سمجھتا۔
عرق ایسے تھیلے کو کہتے ہیں جس میں 15 صاع کھجور سما جائے۔
اس حدیث سے آج گرانی کے دور میں عامۃ المسلمین کے لیے بہت سہولت نکلتی ہے جبکہ لوگ گرانی سے سخت پریشان ہیں اور اکثر بھوک سے اموات ہو رہی ہیں۔
ایسے نازک وقت میں علماء کرام کا فرض ہے کہ وہ صدقہ خیرات کے سلسلہ میں ایسے غرباء کا بہت زیادہ دھیان رکھیں، صدقہ فطر وغیرہ میں بھی یہی اصول ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5368   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6710  
6710. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور کہا: میں تباہ ہوگیا ہوں۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میں رمضان المبارک میں اپنی بیوی سےصحبت کر بیٹھا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تیرے پاس کوئی غلام ہے(جسے تو آزاد کرسکے؟) اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تم متواتر دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں آپ نے پوچھا: کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا: اس دوران میں ایک انصاری کھجوروں سے بھرا ہوا کہ ایک عرق لے کر حاضر ہوئے۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور صدقہ کردو اس نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنے سے ذیادہ ضرورت مند پر صدقہ کردوں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! مدینہ طیبہ کے ان دونوں کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ کوئی اور محتاج نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6710]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا کہ کفارہ ہر شخص پر واجب ہے گو وہ محتاج ہی کیوں نہ ہو۔
یہ شخص بہت محتاج تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تجھ کو کفارہ معاف ہے۔
بلکہ کفارہ دینے میں اس کی مدد فرمائی۔
عرق وہ ٹوکرا جس میں پندرہ صاع کھجور سما جاتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6710   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6711  
6711. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: میں تو ہلاک ہو گیا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میں نے ماہ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے۔ آپ نے فرمایا: تیرے پاس کوئی غلام ہے جسے تو آزاد کر سکے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تو متواتر دو ماہ روزے رکھ سکتا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں آپ نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر؟ جبکہ مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اسے لے جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6711]
حدیث حاشیہ:
گھر والوں میں دور اور نزدیک کے سب رشتہ دار آگئے گو یہ حدیث کفارہ رمضان کے باب میں ہے مگر قسم کے کفارے کو بھی اسی پر قیاس کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6711   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1936  
1936. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک شخص نے آکر عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں برباد ہوگیاہوں۔ آپ نے پوچھا: کیا ہوا؟ اس نے عرض کیا: میں نے بحالت روزہ اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تجھے کوئی غلام میسر ہے کہ تو اسے آزاد کردے؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتا ہے؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ حضرت ابوہریرۃ ؓ کہتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس ٹھہرا رہا ہم سب بھی اسی طرح بیٹھے تھے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کھجوروں کا بھرا ہوا عرق لایا گیا۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔۔۔ آپ نے فرمایا: سائل کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا: میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ لو اور اسے خیرات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1936]
حدیث حاشیہ:
صورت مذکورہ میں بطور کفارہ پہلی صورت غلام آزاد کرنے کی رکھی گئی، دوسری صورت پے در پے دو مہینہ روزہ رکھنے کی، تیسری صورت ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی، اب بھی ایسی حالت میں یہ تینوں صورتیں قائم ہیں چونکہ شخص مذکور نے ہر صورت کی ادائیگی کے لیے اپنی مجبوری ظاہر کی آخر میں ایک صورت آنحضرت ﷺ نے اس کے لیے نکالی تو اس پر بھی اس نے خود اپنی مسکینی کا اظہار کیا۔
آنحضرت ﷺ کو اس کی حالت زار پر رحم آیا اور اس رحم و کرم کے تحت آپ ﷺ نے وہ فرمایا جو یہاں مذکو رہے۔
حضرت امام بخاری ؒ کے نزدیک اب بھی کوئی ایسی صورت سامنے آجائے تو یہ حکم باقی ہے۔
کچھ لوگوں نے اسے اس شخص کے ساتھ خاص قرار دے کر اب اس کو منسوخ قرار دیا ہے مگر حضرت امام بخاری ؒ کا رجحان اس باب سے ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1936   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6087  
6087. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میں تو تباہ ہو گیا۔ میں نےماہ رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک غلام آزاد کر۔ اس نے کہا: میرے پاس غلام نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔ اس نے کہا ان روزوں کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ اس نے کہا: یہ کام بھی میری استطاعت سے باہر ہے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا جسی میں کھجوریں تھیں۔۔۔ (راوی حدیث) ابراہیم نے کہا: عرق ایک طرح کا پیمانہ ہے۔۔۔۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سائل کہاں ہے؟ لو اسے صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: مجھ سے زیادہ جو ضرورت مند ہو اسے دوں؟ اللہ کی قسم! مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے۔ یہ بات سن کر نبی ﷺ ہنس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6087]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی آپ کے ہنسنے کا ذکر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6087   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1936  
1936. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک شخص نے آکر عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں برباد ہوگیاہوں۔ آپ نے پوچھا: کیا ہوا؟ اس نے عرض کیا: میں نے بحالت روزہ اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تجھے کوئی غلام میسر ہے کہ تو اسے آزاد کردے؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتا ہے؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ حضرت ابوہریرۃ ؓ کہتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس ٹھہرا رہا ہم سب بھی اسی طرح بیٹھے تھے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کھجوروں کا بھرا ہوا عرق لایا گیا۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔۔۔ آپ نے فرمایا: سائل کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا: میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ لو اور اسے خیرات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1936]
حدیث حاشیہ:
(1)
جمہور محدثین کا موقف ہے کہ مفلسی اور ناداری کی وجہ سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ نے وہ کھجوریں صدقے کے طور پر اسے عنایت کی تھیں تاکہ وہ اپنے اہل و عیال کو کھلائے۔
آپ نے اسے کفارے سے سبکدوش نہیں کیا۔
(2)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ تنگ دستی کی بنا پر کفارہ ساقط ہو جائے گا جیسا کہ صدقۂ فطر، غربت کی وجہ سے ساقط ہو جاتا ہے لیکن صدقۂ فطر پر اسے قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صدقۂ فطر کا ایک وقت ہے، اس کے بعد وہ خود بخود ساقط ہو جاتا ہے، یعنی اسے نماز عید سے پہلے پہلے ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ اس کفارے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں، البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:
اسے خود کھاؤ اور اپنے اہل و عیال کو کھلاؤ، اللہ تعالیٰ نے تیری طرف سے کفارہ دے دیا ہے۔
لیکن یہ حدیث قابل حجت نہیں، اس لیے محتاج اور نادار سے کفارہ ساقط نہیں ہو گا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس صدقے کو اسے اہل و عیال پر خرچ کرنے کے لیے دیا، باقی رہا کفارہ وہ حالات کشادہ ہونے پر ادا کر دیا جائے گا۔
(فتح الباري: 219/4) (3)
بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جماع سے مرد اور عورت پر صرف ایک ہی کفارہ کافی ہو گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی، حالانکہ بیان کرنے کی ضرورت تھی، لیکن اگر عورت نے خوشی سے اس کام میں شرکت کی ہو تو اس پر الگ کفارہ ہو گا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس لیے عورت کا ذکر نہیں کیا کہ شاید عورت مجبور کر دی گئی ہو یا روزہ بھول گئی ہو یا کسی عذر یا مرض یا سفر یا صغر سنی یا جنون یا حیض کی وجہ سے معذور ہو یا دن کے وقت حیض سے پاک ہوئی ہو۔
یہ سب احتمالات موجود ہیں۔
ان کی موجودگی میں عورت پر کفارہ واجب نہ ہونے کا استدلال محل نظر ٹھہرتا ہے۔
(فتح الباري: 217/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1936   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2600  
2600. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میں تو ہلاک ہوگیا۔ آپ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا: میں نے رمضان میں بحالت روزہ بیوی سے جنسی تعلق قائم کرلیا ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم ایک غلام آزاد کرسکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر تم مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلاسکتے ہو؟ اس نے کہا: میں یہ بھی نہیں کرسکتا۔ اتنے میں ایک انصاری کھجوروں کا ایک عرق لے کرآیا۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔۔۔ آپ نے فرمایا: تم یہ ٹوکرا لے جاؤ اور انھیں صدقہ کردو۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اپنے سے کسی زیادہ غریب پر صدقہ کروں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول ﷺ برحق بناکر بھیجاہے!مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں ہم سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2600]
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ ہبہ میں چیز قبضے میں لینا ہی کافی ہے، زبان سے قبول کہنے کی ضرورت نہیں جبکہ امام شافعی ؒ کے نزدیک ہبہ میں طرفین سے ایجاب و قبول ضروری ہے، اس کے بغیر ہبہ ناتمام ہے۔
لیکن ان کا موقف مرجوح ہے۔
اس روایت میں ہے کہ اس آدمی نے کھجور کے ٹوکرے پر قبضہ کیا، زبان سے اسے قبول کرنے کا اقرار نہیں، صرف اتنا کرنے سے ہبہ ہو گیا۔
ہر معاملے میں ایجاب و قبول کی قید لگانا، اپنی زندگی کو اجیرن بنانے کے مترادف ہے، ہاں اگر کوئی اہم معاملہ ہو تو اس کے لیے ایجاب و قبول کی شرط لگائی جا سکتی ہے جیسا کہ ہم نے نکاح کے متعلق بیان کیا ہے۔
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک صدقے اور ہبے کا ایک ہی حکم ہے کیونکہ یہ کھجوریں صدقے کی تھیں اصطلاحی ہبہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2600   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5368  
5368. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا: میں تو ہلاک ہو گیا ہوں آپ نے فرمایا: کیوں کیا ہوا؟ اس نے کہا میں نے اپنی بیوی سے رمضان میں ہم بستری کرلی ہے آپ نے فرمایا: پھر ایک غلام آزاد کر دو۔ اس نے کہا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔ اس نے کہا: مجھ میں اس کی بھی طاقت نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ۔ اس نے کہا: میں اتنا سامان نہیں پاتا۔ اس دوران میں نبی ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا تو آپ نے پوچھا: سوال کرنے والا کہاں ہے؟ عرض کیا: میں یہاں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: یہ کھجوروں کا ٹوکرا صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! جو ہم سے زیادہ محتاج ہیں ان پر صدقہ کروں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5368]
حدیث حاشیہ:
(1)
دوسری روایت میں ہے کہ تو بھی کھا اور اپنے اہل خانہ کو بھی کھلا۔
(سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2217)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تنگ دستی کے پیش نظر کفارے کی ادائیگی پر اس کے اہل خانہ کا کھانا مقدم رکھا۔
اگر گھر والوں کو کھلانا ضروری نہ ہوتا تو وہ ان کھجوروں کو خیرات کرتا۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ تنگ دست کا اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا اس کے صدقہ و خیرات کرنے سے مقدم ہے۔
آج کل لوگ مہنگائی کے ہاتھوں بہت پریشان ہیں۔
ایسے نازک حالات میں علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ صدقہ و خیرات کے سلسلے میں ایسے تباہ حال لوگوں کا خیال رکھیں جن کے چولہے ٹھنڈے رہتے ہیں اور ان کے بچے روٹی کو ترستے ہیں۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5368   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6709  
6709. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: میں ہلاک ہو گیا ہوں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میں نے رمضان المبارک میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے آپ نے فرمایا: کیا تم ایک غلام آزاد کر سکتے ہو؟ پھر فرمایا: اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ فرمایا: بیٹھ جاؤ۔ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس ایک عرق لایا گیا جس میں کھجوریں تھں۔ عرق ایک بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ یہ لے لو اور اسے صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں؟ اس پر نبی ﷺ ہنس دیے حتیٰ کہ آپ کے سامنے والے دانت دکھائی دینے لگے: پھر آپ نے فرمایا: اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6709]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس حدیث سے یہ ہے کہ جس طرح حدیث میں مذکور شخص نے روزے کے منافی کام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے اسے کفارہ دینے کی تلقین کی، اسی طرح قسم میں بھی اگر کوئی شخص قسم کے منافی کام کرے گا تو قسم کا کفارہ دینا پڑے گا۔
اگرچہ اس حدیث میں رمضان کے روزے کا کفارہ ذکر ہوا ہے، تاہم قسم کے کفارے کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
(2)
قرآن کریم کی ظاہر آیت سے یہ حکم سمجھا جا سکتا ہے کہ کفارہ، قسم کے فوراً بعد پڑ جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ﴾ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو۔
(المائدة: 89/5)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے قرآنی آیت کے مفہوم کو متعین کیا ہے کہ کفارہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب قسم کے منافی کام کیا جائے جیسا کہ روزے کا کفارہ اس وقت واجب ہوا جب اس نے روزے کے منافی کام کیا۔
(3)
واضح رہے کہ روزے کا کفارہ بالترتیب ہے، یعنی پہلے غلام آزاد کرے اگر اس کی ہمت نہیں تو دو ماہ مسلسل روزے رکھے اور اگر اس کی بھی ہمت نہیں تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے جبکہ قسم کے کفارے میں اسے اختیار ہے:
دس مساکین کو کھانا کھلا دے یا انہیں پوشاک دے دے یا ایک غلام آزاد کر دے۔
اگر ان میں سے کسی کی ہمت نہیں تو تین دن کے روزے رکھ لے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6709   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6710  
6710. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور کہا: میں تباہ ہوگیا ہوں۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میں رمضان المبارک میں اپنی بیوی سےصحبت کر بیٹھا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تیرے پاس کوئی غلام ہے(جسے تو آزاد کرسکے؟) اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تم متواتر دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں آپ نے پوچھا: کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا: اس دوران میں ایک انصاری کھجوروں سے بھرا ہوا کہ ایک عرق لے کر حاضر ہوئے۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور صدقہ کردو اس نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنے سے ذیادہ ضرورت مند پر صدقہ کردوں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! مدینہ طیبہ کے ان دونوں کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ کوئی اور محتاج نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6710]
حدیث حاشیہ:
(1)
کفارہ ہر شخص پر واجب ہے جو قسم کے منافی کام کرتا ہے اگرچہ وہ تنگ دست ہی کیوں نہ ہو۔
تنگ دستی اس کی معافی کا سبب نہیں بن سکتی، چنانچہ مذکورہ حدیث کے مطابق جس شخص سے روزے کے منافی کام ہوا وہ انتہائی تنگ دست اور محتاج تھا جیسا کہ اس کے بیان سے ظاہر ہے، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کفارہ معاف نہیں کیا بلکہ کفارے کی ادائیگی میں اس کا تعاون فرمایا ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے کفارۂ قسم کو کفارہ رمضان پر قیاس کیا ہے۔
بہرحال تنگ دستی، کفارے کے لیے معافی کا سبب نہیں ہو گی، ہر حال میں کفارہ ادا کرنا ہو گا۔
اگر کوئی محتاج ہے تو کفارے کی ادائیگی میں اس کا تعاون کیا جا سکتا ہے لیکن شریعت میں اس کی معافی نہیں ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 727/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6710   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6711  
6711. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: میں تو ہلاک ہو گیا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میں نے ماہ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے۔ آپ نے فرمایا: تیرے پاس کوئی غلام ہے جسے تو آزاد کر سکے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تو متواتر دو ماہ روزے رکھ سکتا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں آپ نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر؟ جبکہ مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اسے لے جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6711]
حدیث حاشیہ:
(1)
کفارۂ قسم کا ایک مصرف دس مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔
اس میں عموم ہے کہ وہ مساکین قریبی رشتے دار ہوں یا دور کی تعلق داری رکھتے ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارۂ رمضان دینے والے سے فرمایا کہ یہ (کھجوروں کا ٹوکرا)
لے جاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔
گھر والوں میں دور اور نزدیک کے تمام رشتے دار آ جاتے ہیں۔
(2)
اگرچہ یہ حدیث کفارۂ رمضان کے متعلق ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم کے کفارے کو اس پر قیاس کرتے ہوئے مذکورہ حکم مستنبط فرمایا۔
جب قریبی رشتے دار مساکین کو کفارہ دیا جا سکتا ہے تو دور والے تعلق دار تو اس کے زیادہ حق دار ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حکم کا استنباط اس شخص کی رائے کے مطابق ہے جو اہل خانہ کو کفارہ دینے کا موقف رکھتا ہے لیکن جس کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطور صدقہ دیا، کفارہ جوں کا توں اس کے ذمے تھا، اس رائے کے مطابق یہ استنباط صحیح نہیں ہو گا۔
(فتح الباري: 727/11) (3)
واضح رہے کہ کفارہ ان اقرباء کو دیا جا سکتا ہے جن کے نان و نفقہ کی ذمہ داری کفارہ دینے والے پر نہ ہو، اگر ان کی کفالت اس کے ذمے ہے تو انہیں کفارہ دینا جائز نہیں ہے جیسا کہ بیوی کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔
واللہ أعلم (عمدة القاري: 754/15)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6711