Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
129. . بَابٌ في السَّهْوِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں سہو (بھول چوک) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1203
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَزَادَ أَوْ نَقَصَ"، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَالْوَهْمُ مِنِّي، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ؟، قَالَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، ثُمَّ تَحَوَّلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، آپ نے کچھ زیادہ یا کچھ کم کر دیا، (ابراہیم نخعی نے کہا یہ وہم میری جانب سے ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا نماز میں کچھ زیادتی کر دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی انسان ہی ہوں، جیسے تم بھولتے ہوں ویسے میں بھی بھولتا ہوں، لہٰذا جب کوئی شخص بھول جائے تو بیٹھ کر دو سجدے کرے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کی جانب گھوم گئے، اور دو سجدے کئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 19 (572)، سنن ابی داود/الصلاة 196 (1021)، (تحفة الأشراف: 9424)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 23 (401)، سنن الترمذی/الصلاة 173 (392)، سنن النسائی/السہو25 (1242)، مسند احمد (1/379، 429، 438، 455) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1203 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1203  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز میں بھول عام طورپر شیطان کے وسوسے اور انسان کی غفلت کی وجہ سے ہوتی ہے- نماز میں اس نقص کے ازالے کے لئے سجدہ سہو مقرر کیاگیا ہے۔

(2)
سجدہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز کا اظہار ہے۔
گویا مسلمان اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اظہار کرتا ہے۔
کہ اللہ ہی ہرعیب ونقص سے پاک ہے۔

(3)
سجدہ عبادت کی ایک اعلیٰ صورت ہے۔
اس لئے شیطان اسے ناپسند کرتا ہے۔
مومن جب نماز میں غلطی ہوجانے پر سجدہ کرتاہے۔
تو اس سے شیطان کی تذلیل ہوتی ہے۔
کہ اس نے بندے کو نماز کے ثواب سے محروم کرنا چاہا لیکن بندے کو سجدوں کامزید ثواب مل گیا۔

(4)
نبی اکرمﷺکو نماز میں بھول پیش آ جانے میں اللہ کی خاص حکمت تھی۔
وہ یہ کہ مسلمانوں کو معلوم ہو جائے کہ بھول کی صورت میں شرعی حکم کیا ہے۔
اور سجدے کا کیا طریقہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1203   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7249  
´ایک سچے شخص کی خبر پر اذان، نماز، روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ خَمْسًا، فَقِيلَ: أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ؟، قَالَ: وَمَا ذَاكَ، قَالُوا: صَلَّيْتَ خَمْسًا، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر کی پانچ رکعت نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا نماز (کی رکعتوں) میں کچھ بڑھ گیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ صحابہ نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھائی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد دو سجدے (سہو کے) کئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَخْبَارِ الْآحَادِ: 7249]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7249 کا باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الأَذَانِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالأَحْكَامِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں خبر واحد کے بارے میں وضاحت فرمائی کہ اگر کوئی سچا شخص کسی بھی بات کی خبر دے رہا ہو چاہے اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے اس کی بات مقبول ہو گی، تحت الباب جو حدیث سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اس میں خبر واحد کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے بلکہ وہاں پر اس کی نفی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع دینے والے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پانچ رکعت پڑھائی ہیں کئی لوگ تھے . . . . . لہٰذا ان حالات میں ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کس طرح ممکن ہو گی؟

ابن التین رحمہ اللہ باب اور حدیث میں عدم مناسبت کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں کہ:
«بوب لخبر الواحد وهذا الخبر ليس بظاهر فيما ترجم له لأن المخبرين له بذالك جماعة.» [فتح الباري لابن حجر: 203/14]
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب خبر واحد پر قائم فرمایا ہے جبکہ حدیث میں خبر دینے والے جماعت کی صورت میں تھے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«أشار البخاري إلى الرواية الأخرى فى هذه القصة، فان فيها: وما ذاك؟ قال: صليت خمساً فالقائل واحد، فصدّقه النبى صلى الله عليه وسلم.»
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو اسی واقعہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، اس میں یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا بات ہے؟ تو ایک صحابی نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں، پس جو قائل تھا وہ خبر واحد کی حیثیت رکھتا تھا تو اس کی تصدیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«و بهذا تحصل المطابقة بين الحديث و الترجمة هنا، إذ الحديثان حديث واحد، عن صحابي واحد فى حادثة واحدة، وقد صنفه النبى صلى الله عليه وسلم و عمل بإخباره لكونه صدوقًا عنده.» [ارشاد الساري: 22/13]
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا ایک ہی واقعہ ہے جو دو احادیث میں وارد ہوا ہے، ایک ہی صحابی سے روایت ہے اور ایک ہی معاملہ درپیش آیا تھا، چنانچہ اس ایک صحابی نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ رکعت کی اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمائی اور ان کی خبر پر عمل کیا، کیوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچے تھے۔
یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی ترجمۃ الباب کی انواع میں مختلف قسم کی عادات ظاہر ہوتی ہیں، مندرجہ بالا حدیث اور تراجم الابواب اور اس کے متعلقات کی طرف جب دیکھا جاتا ہے تو امام بخاری رحمہ اللہ جب ایک حدیث پیش کرتے ہیں جس میں دو الفاظ حدیث میں وارد ہوتے ہیں تو ہر ایک پر الگ باب قائم فرماتے ہیں اور ہر مسئلے پر باب قائم فرما کر اس کے متعلق حدیث وارد فرماتے ہیں، اور اس حدیث میں دوسری حدیث کی طرف اشارہ کرنا بھی مقصود ہوتا ہے، لہٰذا یہاں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی طریقہ اپنایا ہے کہ اس مقام پر دوسری حدیث کی طرف اشارہ فرمایا جبکہ دونوں احادیث کا بظاہر مخرج ایک ہی ہے، وہ دوسری حدیث جس کی طرف اشارہ مقصود ہے اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ہی صحیح میں ذکر فرمایا ہے۔
کتاب الصلاۃ «باب إذا صلى خمساً» اس میں یہ الفاظ ہیں کہ «قال صليت خمساً» کہ اس شخص نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں، لہذا یہاں قائل ایک ہی ہے اور اس کی خبر خبر واحد کی حیثیت رکھتی ہے، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت قائم ہوتی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 291   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1241  
´(نماز شک ہونے کی صورت میں) تحری (صحیح بات جاننے کی کوشش) کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو اس کی نماز میں شک ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ وہ (غور و فکر کے بعد) اس چیز کا قصد کرے جسے اس نے درست سمجھا ہو، اور اسی پر اتمام کرے، پھر اس کے بعد یعنی دو سجدے کرے، راوی کہتے ہیں: آپ کے بعض حروف کو میں اس طرح سمجھ نہیں سکا جیسے میں چاہ رہا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1241]
1241۔ اردو حاشیہ:
➊ گویا بعض الفاظ صحیح طرح سمجھ میں نہیں آئے، اسی لیے امام صاحب نے حدیث: 1242 میں یہی روایت ایک اور استاد کے واسطے سے بیان کی تاکہ وہ شک دور ہو جائے اور روایت مستند بن جائے۔
➋ پچھلی روایت میں مطلقاً اقل پر اعتماد کرنے کا حکم تھا مگر اس روایت میں مزید صراحت ہے کہ وہ سوچے کون سی بات صحیح ہے؟ اگر کسی ایک بات پر یقین ہو جائے تو درست ورنہ اقل (کم) پر اعتماد کیا جائے گا کیونکہ وہ قطعاً یقینی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1241   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1243  
´(نماز شک ہونے کی صورت میں) تحری (صحیح بات جاننے کی کوشش) کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو آپ نے کچھ بڑھایا گھٹا دیا، جب آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نئی بات ہوئی ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر نماز کے سلسلہ میں کوئی نیا حکم آیا ہوتا تو میں تمہیں اسے بتاتا، البتہ میں بھی انسان ہی ہوں، جس طرح تم لوگ بھول جاتے ہو، مجھ سے بھی بھول ہو سکتی ہے، لہٰذا تم میں سے کسی کو نماز میں کچھ شک ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ وہ اس چیز کو دیکھے جو صحت و درستی کے زیادہ لائق ہے، اور اسی پر اتمام کرے، پھر سلام پھیرے، اور دو سجدے کر لے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1243]
1243۔ اردو حاشیہ:
➊ آگے آ رہا ہے کہ نماز میں آپ سے اضافہ ہو گیا تھا، یعنی ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھی گئی تھی۔
➋ اگر سجدۂ سہو سلام کے بعد ہو تو وہ سلام دونوں طرف ہونا چاہیے، نہ کہ ایک طرف جیسا کہ احناف کا عمومی رواج ہے کیونکہ مطلق سلام کا لفظ دو سلام پر ہی محمول ہو گا جو کہ نماز میں مشروع ہو معہود ہیں۔ محققین احناف اسی کے قائل ہیں۔
➌ جب لوگ کوئی نئی چیز دیکھیں تو اس کے متعلق پوچھنے میں کوئی حرج نہیں اور امام یا حاکم کو بھی اس کا برا نہیں منانا چاہیے بلکہ خوش دلی سے اس کا جواب دینا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1243   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1244  
´(نماز شک ہونے کی صورت میں) تحری (صحیح بات جاننے کی کوشش) کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، آپ نے اس میں کچھ بڑھا، یا گھٹا دیا، تو جب آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے پوچھا: اللہ کے نبی! کیا نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ تو ہم نے آپ سے اس چیز کا ذکر کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، تو آپ نے اپنا پاؤں موڑا، قبلہ رخ ہوئے، اور سہو کے دو سجدے کیے، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اگر نماز کے متعلق کوئی نئی چیز ہوتی تو میں تمہیں اس کی خبر دیتا، پھر فرمایا: میں انسان ہی تو ہوں، جیسے تم بھولتے ہو، میں بھی بھولتا ہوں، لہٰذا تم میں سے کسی کو نماز میں کوئی شک ہو جائے تو غور و فکر کرے، اور اس چیز کا قصد کرے جس کو وہ درست سمجھ رہا ہو، پھر وہ سلام پھیرے، پھر سہو کے دو سجدے کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1244]
1244۔ اردو حاشیہ:
➊ آپ سے دراصل نماز ظہر میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اضافے کی صورت میں سجود سہو کی مذکورہ صورت پر عمل ہو گا۔
➋ جب نماز میں شک پڑ جائے تو آدمی کو حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے غور و فکر کرنا چاہیے، اس سے نماز خراب نہیں ہوتی۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے پیغامات کو مکمل طور پر پہنچا دیا ہے۔ آپ پر جب بھی کوئی نئی وحی آتی تو آپ فوراًً صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس سے آگاہ فرما دیتے تھے، لہٰذا جو چیز اس وقت دین تھی، آج بھی وہی دین ہے، اس میں کمی بیشی کی گنجائش نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1244   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1245  
´(نماز شک ہونے کی صورت میں) تحری (صحیح بات جاننے کی کوشش) کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے، تو لوگوں نے عرض کیا: کیا نماز کے متعلق کوئی نئی چیز واقع ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ کیا؟ تو لوگوں نے آپ کو جو آپ نے کیا تھا بتایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی حالت میں) اپنا پاؤں موڑا، اور آپ قبلہ رخ ہوئے، اور دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا، پھر آپ (دوبارہ) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا: میں انسان ہی تو ہوں اسی طرح بھولتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو، تو جب میں بھول جاؤں تو تم مجھے یاد دلا دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نماز میں کوئی چیز ہوئی ہوتی تو میں تمہیں اسے بتاتا، نیز آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو اس کی نماز میں وہم ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ وہ سوچے، اور اس چیز کا قصد کرے جو درستی سے زیادہ قریب ہو، پھر اسی پر اتمام کرے، پھر دو سجدے کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1245]
1245۔ اردو حاشیہ: مجھے یاد دلا دیا کرو۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ پانچویں رکعت کے لیے (بھول کر) اٹھے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو متنبہ نہیں کیا۔ انہوں نے خیال کیا کہ شاید نماز میں اضافے کا حکم آگیا ہے، حالانکہ ایسی بات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے مطلع فرما دیتے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1245   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1260  
´آدمی پانچ رکعتیں پڑھ لے تو کیا کرے؟`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی دونوں نمازوں (یعنی ظہر اور عصر) میں سے کوئی ایک نماز پانچ رکعت پڑھائی، تو آپ سے کہا گیا: کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے پوچھا: وہ کیا؟ لوگوں نے عرض کیا: آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں انسان ہی تو ہوں، میں بھی بھولتا ہوں جس طرح تم بھولتے، ہو اور مجھے بھی یاد رہتا ہے جیسے تمہیں یاد رہتا ہے، پھر آپ نے دو سجدے کیے، اور پیچھے کی طرف پلٹے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1260]
1260۔ اردو حاشیہ:
➊ مندرجہ بالا تمام روایات میں پانچ رکعات پڑھنے کا ذکر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پانچ پڑھیں اور علقمہ نے بھی۔ ظاہر ہے چوتھی کو تیسری سمجھ کر ہی پانچویں پڑھی ہو گی، لہٰذا وہ (حقیقتاً) چوتھی میں نہیں بیٹھے ہوں گے۔ احناف کے نزدیک ایسی صورت میں فرضیت باطل ہو جاتی ہے مگر یہ صریح روایات ان کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں، الا یہ مانا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علقمہ کو دو دو سہو ہوئے۔ پہلے چوتھی کو دوسری سمجھ کر بیٹھے۔ پھر صرف ایک رکعت پڑھ کر گویا تیسری میں ہی بیٹھ گئے۔ مگر یہ بہت بعید اور محض تکلف ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو اوپر گزری۔ روایت کے ناقل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ ابن مسعود اور علقمہ دونوں احناف کے لیے حجت ہیں۔
➋ ان روایات میں کلام کے بعد سجدۂ سہو کرنے کا ذکر ہے۔ اس کے بھی احناف قائل نہیں بلکہ یہ تو سلام سے متصل بعد سجدۂ سہو کے قائل ہیں اور سلام بھی صرف ایک طرف۔ فاصلہ اور کلام کی صورت میں اعادے کے قائل ہیں مگر ان کے اپنے ائمہ کی یہ روایات ان کے خلاف ہیں۔ (دونوں مسائل کی مزید تفصیل دیکھیے، حدیث: 1225، 1239)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1260   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1332  
´سجدہ سہو کے بعد سلام پھیرنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رکعت نماز پڑھ کر سلام پھیر دیا، تو خرباق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ نے تین ہی رکعت نماز پڑھی ہے، چنانچہ آپ نے انہیں وہ رکعت پڑھائی جو باقی رہ گئی تھی، پھر آپ نے سلام پھیرا، پھر سجدہ سہو کیا، اس کے بعد سلام پھیرا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1332]
1332۔ اردو حاشیہ:
➊ سجود سہو کے بعد سلام اتفاقی مسئلہ ہے، البتہ تشہد میں اختلاف ہے۔ تشہد کی روایات ضعیف ہیں۔ عام روایات میں تشہد کا ذکر نہیں ہے، اس لیے راجح اور صحیح موقف یہی ہے کہ تشہد نہیں ہے۔ احناف لازمی سمجھتے ہیں۔
خرباق کی تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 1230 کا فائدہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1332   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1019  
´کوئی بھول کر پانچ رکعت پڑھ لے تو کیا کرے؟`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھیں تو آپ سے پوچھا گیا کہ کیا نماز بڑھا دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کیا ہے؟، تو لوگوں نے عرض کیا: آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں، (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کئے اس کے بعد کہ آپ سلام پھیر چکے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1019]
1019۔ اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور نزول شریعت کا دور تھا اور اس میں نسخ کا احتمال تھا اس لئے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین دوران نماز خاموش رہے۔ مگر اب مقتدی کو لازم ہے کہ اپنے امام کی اتباع کرتے ہوئے اسے متنبہ بھی کرے۔
➋ ائمہ احناف کا اس حدیث سے استدلال یہ ہے کہ سہو کی سبھی صورتوں میں سجدے سلام کے بعد ہوں جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان اسی طرف ہے کہ کمی کی صورت میں سلام سے پہلے اور اضافے ہو جانے کی صورت میں سلام کے بعد سجدے کئے جائیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1019   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1020  
´کوئی بھول کر پانچ رکعت پڑھ لے تو کیا کرے؟`
علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی (ابراہیم کی روایت میں ہے: تو میں نہیں جان سکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں زیادتی کی یا کمی)، پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نئی چیز ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کیا؟، لوگوں نے کہا: آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیر موڑا اور قبلہ رخ ہوئے، پھر لوگوں کے ساتھ دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اگر نماز میں کوئی نئی بات ہوئی ہوتی تو میں تم کو اس سے باخبر کرتا، لیکن انسان ہی تو ہوں، میں بھی بھول جاتا ہوں جیسے تم لوگ بھول جاتے ہو، لہٰذا جب میں بھول جایا کروں تو تم لوگ مجھے یاد دلا دیا کرو، اور فرمایا: جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک پیدا ہو جائے تو سوچے کہ ٹھیک کیا ہے، پھر اسی حساب سے نماز پوری کرے، اس کے بعد سلام پھیرے پھر (سہو کے) دو سجدے کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1020]
1020۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر یعنی انسان ہونے پر صریح اور بالکل واضح دلیل ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بارے میں «نور من نور لله» جیسے من گھڑت خود ساختہ اور غلط عقیدے کی تردید ہے۔ اور بتقاضائے بشریت بعض معاملات میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وقتی طور پر کوئی نسیان ہو جانا آپ کے لئے کوئی عیب کی بات نہ تھی۔
➋ نمازی کو اپنا وہم دور کرنے کے لئے سوچنا چاہیے اور پھر یقین پر بنا کرنی چاہیے۔
➌ غلطی نماز فرض میں ہو یا نفل میں سجدہ سہو سے اس کی تلافی ضروری ہے۔ «والله أعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1020   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1028  
´غالب گمان کے مطابق رکعات پوری کرے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب تم نماز میں رہو اور تمہیں تین یا چار میں شک ہو جائے اور تمہارا غالب گمان یہ ہو کہ چار رکعت ہی پڑھی ہے تو تشہد پڑھو، پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کرو، پھر تشہد پڑھو اور پھر سلام پھیر دو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالواحد نے خصیف سے روایت کیا ہے اور مرفوع نہیں کیا ہے۔ نیز سفیان، شریک اور اسرائیل نے عبدالواحد کی موافقت کی ہے اور ان لوگوں نے متن حدیث میں اختلاف کیا ہے اور اسے مسند نہیں کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1028]
1028. اردو حاشیہ:
یہ روایت ضعیف ہے۔ اس لئے ظن غالب کی بجائے یقین ہی کی بنیاد پر نماز کی تکمیل کی جائے گی۔ جیسا کہ مذکورہ باب کی احادیث سے واضح ہے۔ نیز سہو کے دو سجدوں کے بعد تشہد پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1028   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 266  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نماز میں کوئی نئی چیز رونما ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا آپ نے تو اتنی اتنی نماز ادا فرمائی ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں دوہرے کئے (اور ان پر بیٹھ گئے) اور قبلہ رو ہو کر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا پھر ہماری جانب متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا اگر نماز میں کوئی نئی چیز پیدا ہوئی ہوتی تو میں خود تمہیں اس سے باخبر کرتا۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں، اسی طرح بھول جاتا ہوں جس طرح تم لوگ بھول جاتے ہو، لہٰذا جب میں بھول جاؤں تو تم مجھے یاد کرا دیا کرو اور تم میں سے جب کسی کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو صحیح صورت حال تک پہنچنے کی کوشش کر لے پھر اپنی نماز اس بنیاد پر مکمل کر لے۔ پھر دو سجدے کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ (پہلے) نماز مکمل کرنی چاہیئے پھر سلام پھیرے اور پھر سجدہ کرے اور مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو سلام و کلام کے بعد کئے ہیں۔ مسند احمد، ابوداؤد اور نسائی میں مروی عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت میں ہے کہ جس شخص کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو اسے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرنے چاہئیں۔ اسے ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 266»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الصلاة، باب التوجد نحو القبلة حيث كان، حديث:401 وغيره، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة، حديث:572، وحديث عبدالله بن جعفر أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1033، والنسائي، السهو، حديث:1250، وأحمد:1 /205، 206، وسنده حسن، وابن خزيمة:2 /116، حديث:1033.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ» کے الفاظ اپنے لیے فرمائے ہیں۔
اس سے ان لوگوں کو اپنے نظریات و عقائد کی اصلاح کرنی چاہیے جو بشریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں اور قرآنی نصوص صریحہ کی عجیب تاویل کرتے ہیں جو سراسر باطل اور لغو ہے کہ قرآن مجید میں تو منکروں کو خاموش کرانے کے لیے بشر کہا گیا ہے ورنہ درحقیقت تو وہ بشر نہیں تھے‘ بشریت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔
لیکن ان عقلمندوں سے ذرا کوئی پوچھے کہ اس حدیث میں جن لوگوں کو «أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ» کہہ کر مخاطب فرما رہے ہیں کیا وہ مسلمان نہ تھے کہ انھیں خاموش کرانا مقصود تھا‘ یا وہ اہل ایمان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تھے جن کی صداقت ایمانی پر قرآن خود شاہد ہے۔
2.اس حدیث میں تَحَرِّي إِلَی الصَّوَابِ کا حکم ہے۔
تحری دراصل وہ ہے جسے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ نمازی کو اگر ایک اور دو میں شبہ ہو تو ایک کو یقین سمجھے اور دو اور تین میں شک لاحق ہو تو دو رکعت کو درست قرار دے اور تین اور چار میں اگر شک پڑ جائے تو تین کو یقینی تصور کرے اور نماز سے فارغ ہو کر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کر لے‘ نیز یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ مقتدیوں کو امام کی اتباع کرنی چاہیے‘ خواہ امام بھول ہی کیوں نہ جائے‘ البتہ بھولنے کی صورت میں مقتدی امام کو سبحان اللہ کہہ کر متنبہ کرنے کی کوشش ضرور کریں جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما» ‏‏‏‏ ابوجعفر ان کی کنیت ہے۔
عبداللہ بن جعفر بن ابو طالب نام ہے۔
ان کی والدہ کا نام اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہے۔
ہجرت حبشہ کے دوران میں حبشہ کے مقام پر اسلام میں سب سے پہلے یہی پیدا ہوئے تھے۔
۷ ہجری کے اوائل میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ واپس آئے۔
بڑے سخی‘ بہادر‘ پاک دامن اور خوش مزاج تھے۔
کثرت سے سخاوت کرنے کی وجہ سے بحر الجود (سخاوت کا سمندر) کہلاتے تھے۔
اسلام میں ان سے بڑھ کر کوئی سخی نہ تھا۔
۸۰ برس کی عمر میں ۸۰ ہجری میں مدینہ منورہ میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 266   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1205  
´بھول کر ظہر پانچ رکعت پڑھ لے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عیاض نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے پوچھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پانچ رکعت پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا نماز میں اضافہ ہو گیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے؟ آپ سے کہا گیا (کہ آپ نے پانچ رکعت پڑھی ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پاؤں موڑا، اور سہو کے دو سجدے کئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1205]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  بھوک چوک انسانی فطرت ہے۔
جس کا ظہور عبادت کے دوران میں بھی ہوسکتا ہے۔
اس لئے غفلت تو قابل مواخذہ ہوسکتی ہے بھول نہیں۔

(2)
نبوت کا منصب انسانوں کو عطا کیے جانے میں یہ حکمت بھی ہے کہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کے لئے نبی ﷺ کا اسوہ رہنمائی کے لئے موجود ہو۔

(3)
یہ صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کا نبی اکرم ﷺکے لئے احترام کا اظہار ہے۔
کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺکو غلطی پر محمول کرنے کی بجائے ایک بہتر سوچ کا اظہار کیا کہ ممکن ہے نماز کے دوران میں وحی کے ذریعے سے نماز کی رکعت میں اضافہ کردیا گیا ہو۔
مسلمانوں کو بھی اپنے آئمہ اور قائدین کے بارے میں حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔

(4)
نبی کریمﷺنے بھول پر متنبہ کرنے پر صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین پر خفگی کا اظہار نہیں فرمایا۔
بلکہ ان کی بات کو تسلیم کرکے بھول سے ہو جانے والى غلطی کا ازالہ فرما دیا۔
قائد کا اپنے ساتھیوں سے یہی رویہ ہوناچاہیے۔

(5)
سجدہ سہو سلام پھیرنے کے بعد بات چیت ہوجانے کے بعد بھی درست ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1205   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1211  
´جس شخص کو نماز میں شک ہو تو وہ سوچے اور غور کرے اور جو صحیح معلوم ہو اس پر عمل کرے۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کوئی نماز پڑھائی، ہمیں یاد نہیں کہ آپ نے اس میں کچھ بیشی کر دی یا کمی کر دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس کے بارے میں پوچھا تو ہم نے آپ سے اسے بیان کیا، آپ نے اپنا پاؤں موڑا اور قبلہ کی جانب رخ کیا، اور دو سجدے کئے، پھر سلام پھیرا، پھر ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم نازل ہوتا تو میں تمہیں ضرور باخبر کرتا، میں تو ایک انسان ہوں، میں بھولتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو، لہٰذا جب م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1211]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  معلوم نہیں اضافہ ہوا یا کمی ہوئی یہ شک حضرت عبد للہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں بلکہ ابراہیم نخعی کوہوا ان کے استاد حضرت علقمہ نے حدیث سناتے وقت کو ن سا لفظ استعمال کیا تھا۔

(2)
حدیث 1205 میں وضاحت موجود ہے۔
کہ نبی اکرمﷺنے بھول کر ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھا دی تھیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1211   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1212  
´جس شخص کو نماز میں شک ہو تو وہ سوچے اور غور کرے اور جو صحیح معلوم ہو اس پر عمل کرے۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص نماز میں شک کرے، تو سوچ کر صحیح کو معلوم کرے، پھر دو سجدے کرے۔‏‏‏‏ طنافسی کہتے ہیں: یہی اصل ہے جس کو کوئی شخص رد نہیں کر سکتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1212]
اردو حاشہ:
فائدہ:
طنافسی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ شک کی بناء پر سجدہ سہو کا لازم ہونا ایک متفق علیہ مسئلہ ہے۔
جس میں کسی کو اختلاف نہیں باقی تفصیلات میں اختلاف ہوسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1212   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:96  
96- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات منقول ہے کہ انہوں نے سلام پھیرنے کے بعد دو مرتبہ سجدہ سہو کیا اور یہ بات بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد یہ سجدے کیے تھے۔ سفیان کہتے ہیں: یہ روایت طویل ہے، تاہم اس کا صرف یہ حصہ مجھے یاد ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:96]
فائدہ:
نماز میں کمی یا بیشی ہو جاتی ہے۔ شریعت نے اس کا حل بتایا ہے کہ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کر لیے جائیں تاکہ نماز کی کمی یا بیشی دور ہو جائے۔ سجدہ سہو سلام کے بعد بھی درست ہیں، جس طرح سلام سے پہلے بھی درست ہے۔ (مسند احمد: 483/2، سنن ابن ماجه: 1217، حسن) ہرممکن طریقے سے نماز میں خیالات پر کنڑول پانا چاہیے، تاکہ نماز کا مقصد فوت نہ ہو، اور خشیت الٰہی کا حصول ہو۔ اس کے لیے نماز کا ترجمہ یاد کرنا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 97   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1284  
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں پانچ رکعات پڑھا دیں تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے آپﷺ نے پوچھا: یہ کیا لوگوں نے کہا آپﷺ نے پانچ رکعات پڑھائی ہیں آپﷺ نے فرمایا: میں بھی تمھاری طرح بشر ہوں میں یاد رکھتا ہوں جس طرح تم یاد رکھتے ہو اور میں بھول جاتا ہوں جس طرح تم بھولتے ہو پھر آپﷺ نے بھولنے کے دو سجدے کیے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1284]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ بشر تھے بقول علامہ سعیدی قرآن کریم سے قطعیت کے ساتھ جو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ آپﷺ نوع انسان سے مبعوث ہوئے آپﷺ انسان کامل اور اَفْضَلُ الْبَشَر ہیں۔
(شرح صحیح مسلم:
ج: 2،
ص: 145)

۔

قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خود اطلاق ہوا ہے اور بقول علامہ سعیدی اس میں کوئی شک نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم وہدایت کے اعتبار سے عَلٰی وَجْهِ الْکَمَال نور تھے اوریہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ کفر،
شرک اور جہالت کے اندھیروں کو دور کرنا انبیاء علیہم السلام کا کام ہے اور یہ کہ افضل نور ہی ہے جو علم ہدایت کا نور ہے۔
(ج: 2۔
ص: 1145)

آپﷺ کا علم وہدایت کے اعتبار سے نور ہونا اس کا تو کوئی بھی مسلمان انکار نہیں کرسکتا۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ بھی بعض دفعہ بھول جاتے تھے لیکن اس بھول کا تعلق بالاتفاق ان باتوں سے نہیں جو آپﷺ کو امت تک پہنچانے کے لیے بتائی جاتی تھیں۔
رشدوہدایت کی تبلیغ کے بعد بھول کا امکان ہے،
لیکن آپﷺ بھول چوک پر قائم نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگاہ کر دیا جاتا تھا،
اگر آپﷺ کو خود یاد نہیں آتا تھا یا کسی کی توجہ دلانے سے یاد نہیں آتا تھا۔
انسانوں کے ساتھ نسیان میں مشابہت محض بھول کے اعتبار سے ہے جب کہ آدم علیہ السلام کے بارے میں آیا ہے۔
نَسِیَ آدَمُ وَنَسِیَتْ ذُرِّیَّتُهُ۔
بھول آدم علیہ السلام کی فطرت میں تھی اس لیے ان کی اولاد بھی بھول جاتی ہے،
لیکن بھول کے سبب وعلت کا یکساں ہونا لازم نہیں ہے۔
اور نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ہماری بھول اور آپﷺ کی بھول کی کیفیت یکساں ہے۔
لیکن یہ باتیں محض مبالغہ ہیں ہم قبلہ کے محتاج،
ان کا خود قبلہ محتاج،
ہم کسی سے نماز میں بات کریں تو نماز ٹوٹ جائے اور سرکار کسی سے نماز میں بات کریں تو نماز قائم رہے،
کیونکہ اگر یہ صورتحال ہوتی تو جب آپﷺ بَیْتُ الْمَقْدَسْ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے تو بَیْتُ اللہِ کی طرف رخ کرنے کے لیے بے تاب نہ ہوتے،
نماز میں آپﷺ سلام کا بلند آواز سے جواب مرحمت فرماتے،
ان کے سوال کا جواب نماز کے اندر ہی دے دیتے،
اگر آپﷺ کے فضلات پاک ہوتے تو آپﷺ لوگوں کو ان سے محروم نہ فرماتے،
آپﷺ سنگی لگواتے تھے تو لوگوں میں یہ خون تقسیم فرماتے تاکہ وہ اس کو پی لیں،
پاخانہ وپیشاب کسی برتن میں کرتے اور پھر اس کو تقسیم کر دیتے،
یا کم از کم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپﷺ کے لعاب اور وضو کے پانی کی طرح ان پر جھپٹتے اور ان کے احکام عام انسانوں کے احکام سے الگ ہوتے آپﷺ کی طہارت ان سے متاثر نہ ہوتی۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر انسان ایک رکعت بھول کر زیادہ پڑھ لے تو اس کی نماز باطل نہ ہو گی اور نماز کے سلام کے بعد اگر مقتدی بتائیں اور اس سلسلہ میں کلام ہو تو پھر بھی نماز باطل نہ ہو گی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےخصوصی شاگرد علقمہ نے اس حدیث کا یہی مفہوم سمجھا اس لیے بات چیت کے بعد سلام سے پہلے دوسجدے سہو ہی کیے،
نئے سرے سے نماز نہیں پڑھی۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ۔
اور جمہور سلف کا یہی قول ہے۔
لیکن احناف کے نزدیک بقدر تشہد بیٹھنے کے بعد اٹھا ہے تو پھر سجدہ سہو کر کے سلام پھیرے گا بشرط یہ کہ اس دوران گفتگو نہ کی۔
اگر چار رکعت کے بعد بیٹھا نہیں ہے اور پانچویں رکعت پڑھ لی تو پھر ایک اور رکعت پڑھ کر سلام پھیرے اور یہ چھ رکعات امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نفل نماز ہو گی اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ نماز نہیں ہوگی۔

اگر کوئی انسان بھول کر پانچویں رکعت شروع کر دے تو دوسرے سجدے سے پہلے پہلے جہاں بھی پتہ چل جائے تشہد کے لیے بیٹھ جائے اور سجدہ سہو کر لے۔

سجدہ سہو کا طریقہ:
نماز میں سہو کی حدیث میں پانچ صورتیں آئی ہیں۔

آپﷺ دو رکعات کے بعد تیسری رکعات کے لیے بیٹھے بغیر کھڑے ہو گئے۔

دو رکعات کے بعد سلام پھیر دیا۔

تین رکعات کے بعد سلام پھیر دیا۔

شک کی صورت میں سجدہ سہو کیا۔

پانچ رکعات پڑھانے کی صورت میں سجدہ کیا۔
سجدہ سہو کے طریقہ میں اختلاف ہے۔

امام داود ظاہری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صرف ان صورتوں میں سجدہ سہو کیا جائے گا جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس طرح پہلے یا بعد میں کیا جائے گا جیسے آپﷺ نے کیا تھا۔
بھول کر کسی اور صورت میں سجدہ نہیں کیاجائےگا۔

احناف کے نزدیک سجدہ سہو ہرصورت میں سلام سے پہلے ہو گا،
یعنی تشہد پڑھنے کےبعد سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے گا۔
پھر نئے سرے سے تشہد پڑھ کر درود اور دعاؤں کے بعد سلام پھیرا جائےگا۔

مالکیہ کے نزدیک نماز میں اگر کمی واقع ہوئی مثلاً پہلا تشہد رہ گیا ہے تو سجدہ سہو سلام سے پہلے ہوں گے اگر نماز میں اضافہ ہوا مثلاً تیسری رکعات کے بعد بیٹھ گیا ہے اور پھر اٹھا ہے تو سجدہ سہو بعد میں ہوں گے۔

حنابلہ کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جگہ سلام سے پہلے سجدہ کیا ہے وہاں پہلے کیا جائے گا،
اور جہاں بعد میں سجدہ کیا ہےوہاں بعد میں کیا جائےگا،
اگرکوئی نئی صورت سامنے آ جائے تو پھرسجدہ سہوپہلے ہوں گے۔

امام اسحاق بن راہویہ کا نظریہ ہے آپﷺ سے ثابت صورتوں میں امام احمد والا اور نئی صورت میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ والا ہے،
سب سے بہترطریقہ یہی ہے۔
اورائمہ کا اختلاف بہتر اور اولیٰ طریقہ میں ہی ہے جواز میں اختلاف نہیں ہے کہ سلام سے پہلے کر لے یا بعد میں ہر صورت جائز ہے،
اور عام آدمی کے لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ والا طریقہ ہی بہتر ہے،
اکثر جگہ آپﷺ نے پہلے سجدے کیے ہیں اور بعد میں سلام پھیرا ہے جیسا مذکورہ بالا احادیث میں گزر چکا ہے اور نماز میں بھول ایک دفعہ سے زائد دفعہ ہو تو سجدے دو ہی کرنے ہوں گے۔

ابراہیم بن سوید علقمہ کے شاگرد تھے اور اسی وجہ سے انہیں یا اعور سے خطاب کیا،
کیونکہ شاگرد استاد کی ایسی بات کو برا نہیں سمجھتا اگر کسی کو اس انداز سے تکلیف پہنچتی ہو تو پھر یہ طریقہ درست نہیں ہو گا الا یہ کہ اس کے بغیر اس کا پتہ نہ چلتا ہو جیسا کہ بعض رایوں کے ناموں کے ساتھ اعمش،
اعرج وغیرہ آتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1284   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1286  
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سجودِ سہو سلام و کلام (گفتگو) کے بعد کیے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1286]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے یہ ثابت ہو رہا ہے نماز میں بھول جانے کی صورت میں نماز کے بارے میں گفتگو سے نماز باطل نہیں ہوتی،
کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حبشہ سے مدینہ واپسی نماز میں گفتگو کی اجازت ختم ہونے کے بعد ہوئی اور اس واقعہ میں وہ شریک تھے اورآپﷺ نے گفتگو کرنے کے بعد سجدہ سہوکیے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1286   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 401  
401. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے نماز پڑھی۔ راوی حدیث ابراہیم نخعی کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ آپ نے نماز میں اضافہ کر دیا تھا یا کچھ کمی کر دی تھی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! کیا نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے؟آپ نے فرمایا:بتاؤ اصل بات کیاہے؟ لوگوں نے عرض کیا: آپ نے اس قدر نماز پڑھی ہے۔ یہ سن کر آپ نے اپنے دونوں پاؤں موڑے اور قبلہ رو ہو کر دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا اورہم سے مخاطب ہو کر فرمایا: اگر نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آتا تو میں تمہیں ضرورمطلع کرتا، لیکن میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔ اور جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے تو اسے چاہیے کہ صحیح حالت معلوم کرنے کی کوشش کرے، پھر اسی پر اپنی نماز پوری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:401]
حدیث حاشیہ:
بخاری شریف ہی کی ایک دوسری حدیث میں خودابراہیم سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے بجائے چار کے پانچ رکعت نماز پڑھ لی تھیں اور یہ ظہر کی نماز تھی۔
طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ یہ عصر کی نماز تھی، اس لیے ممکن ہے کہ دودفعہ یہ واقعہ ہوا ہو۔
ٹھیک بات سوچنے کا مطلب یہ کہ مثلاً تین یاچار میں شک ہو تو تین کو اختیار کرے اور دواورتین میں شک ہو تو دو کو اختیار کرے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ پیغمبروں سے بھی بھول چوک ممکن ہے اوریہ بھی ثابت ہوا کہ نماز میں اگراس گمان پر کہ نماز پوری ہو چکی ہے کوئی بات کرلے تونماز کانئے سرے سے لوٹانا واجب نہیں ہے، کیونکہ آپ نے خود نئے سرے سے نماز کو لوٹایا نہ لوگوں کو حکم دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 401   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 404  
404. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے سہو ظہر کی پانچ رکعات پڑھا دیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: آیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کیوں، اصل بات کیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا: آپ نے پانچ رکعات پڑھا دی ہیں، (یہ سنتے ہی) آپ نے اپنے دونوں پاؤں موڑے اور دو سجدے کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:404]
حدیث حاشیہ:
گذشتہ حدیث سے ثابت ہوا کہ کچھ صحابہ نے باوجود اس کے کہ کچھ نماز کعبہ کی طرف پیٹھ کرکے پڑھی مگر اس کو دوبارہ نہیں لوٹایا اوراس حدیث سے یہ نکلا کہ آپ نے بھول کر لوگوں کی طرف منہ کرلیا اورکعبہ کی طرف آپ کی پیٹھ ہوگئی مگرآپ ﷺ نے نماز کو پھر بھی نہیں لوٹایا، باب کا یہی مقصود تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 404   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7249  
7249. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ہمیں ظہر کی پانچ رکعات پڑھا دیں تو آپ سے پوچھا گیا: کیا نماز میں اضافہ ہوگیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے کہا: آپ نے پانچ رکعات پڑھائی ہیں۔ آپ ﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7249]
حدیث حاشیہ:
اگرچہ اس روایت کی تطبیق ترجمہ باب سے مشکل ہے کیونکہ یہ کہنے والے کہ آپ نے پانچ رکعت پڑھی ہیں۔
کئی آدمی معلوم ہوتے ہیں لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جسے خود انہوں نے کتاب الصلوٰة، باب إذا صلٰی خمساً میں روایت کیا۔
اس میں یہ صیغہ مفرد یوں ہے کہ قال صلیت خمسا تو باب کی مطابقت حاصل ہو گئی۔
اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے کہنے پر عمل کیا۔
حافظ نے کہا کہ ایک شخص کا نام معلوم نہ ہو سکا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک شخص کے کہنے پر اعتبار کر لیا اگر ایک معتبر آدمی کا کہنا نا قابل اعتبار ہوتا تو آپ ایسا کیوں کرتے۔
معلوم ہوا کہ شخص واحد معتبر کی روایت کو تسلیم کرنا عقلاً ونقلاً ہر طرح سے درست ہے جو لوگ مطلق خبر واحد کے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں ان کایہ کہنا کسی طرح سے بھی درست نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7249   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:401  
401. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے نماز پڑھی۔ راوی حدیث ابراہیم نخعی کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ آپ نے نماز میں اضافہ کر دیا تھا یا کچھ کمی کر دی تھی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! کیا نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے؟آپ نے فرمایا:بتاؤ اصل بات کیاہے؟ لوگوں نے عرض کیا: آپ نے اس قدر نماز پڑھی ہے۔ یہ سن کر آپ نے اپنے دونوں پاؤں موڑے اور قبلہ رو ہو کر دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا اورہم سے مخاطب ہو کر فرمایا: اگر نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آتا تو میں تمہیں ضرورمطلع کرتا، لیکن میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔ اور جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے تو اسے چاہیے کہ صحیح حالت معلوم کرنے کی کوشش کرے، پھر اسی پر اپنی نماز پوری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:401]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ نماز میں قبلے کی رعایت انتہائی ضروری ہے۔
حتی کہ اگرکوئی شخص بھول کر نماز سے خارج ہوگیا اور غیر قبلے کی طرف متوجہ ہوگیا پھر اسے احساس ہوا کہ اس نے غلطی سے سلام پھیردیا ہے تو اس صورت میں بھی وہ فوراً قبلہ روہوکر نماز پوری کرے اوراگر صرف سجدہ سہو کرنا ہو تو وہ بھی نماز ہی کاحصہ ہے، اس لیے سجدہ سہو بھی قبلہ روہوکر اداکرے، جیسا کے اس حدیث میں ہےکہ آپ نے نماز سے فراغت کے بعد منہ قبلے سے پھیر لیا تھا، بتانے پر نئے سرے سے قبلہ روہوکر نماز کی تکمیل فرمائی۔

کسی چیز سے دل کا غافل ہوجانا نسیان ہے اور کسی چیز کا دل سے اوجھل ہوجانا سہو ہے۔
اگرنمازی کو سہو نسیان کی وجہ سے اپنی نماز کے متعلق شک پڑ جائے تو سوچ وبچار کرکے صحیح اور درست بات کو متعین کرنا تحری کہلاتا ہے۔
اسے ظن غالب بھی کہتے ہیں۔
حدیث کے مطابق نمازی کو ایسے حالات میں تحری سے کام لینا چاہیے۔
اگرتحری سے کوئی جانب راجح ہوجائے توآئندہ اسی غلبہ ظن پر بنیاد رکھتے ہوئے نماز کو مکمل کرلیا جائے۔
اگر دونوں جانب برابر ہوں، کوئی ایک جانب راجح نہ قرارپاسکے تو جانب اقل پر عمل کرے۔
اس کامطلب یہ ہے کہ اگرتعداد رکعات کے متعلق تین یاچار کا شک ہوتو جانب اقل تین پر بنیاد قائم کرکے نماز مکمل کی جائے، یعنی تحري إلی الصواب اور أخذ بالأقل دوالگ الگ چیزیں ہیں۔
تحري إلی الصواب کو أخذ بالأقل پر محمول کرنا صحیح نہیں۔
جیسا کہ بعض اہل علم کاموقف ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ حضرات انبیاء علیہم السلام سے بھی سہو ہوسکتاہے، لیکن یہ سہو ونسیان اعمال کے معاملے میں تو ممکن ہے، تبلیغ کے معاملے میں ہرگز ممکن نہیں، کیونکہ اس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود اٹھائی ہے، قرآن مجید میں ہے کہ قرآن کریم کا بیان، یعنی کھول کر واضح کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
اعمال کے معاملے میں انبیاء علیہم السلام کو جو سہو پیش آیا ہے وہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا پیش نظر آیا ہے تاکہ عام مسلمانوں کوعملی طور پر مسائل سہو کی تعلیم دی جاسکے۔
(فتح الباري: 653/1)

راوی حدیث حضرت منصور جب اپنے شیخ ابراہیم نخعی سے بیان کرتے ہیں تو سجدہ سہو کے سبب کے متعلق شک ہوتا ہے کہ وہ تعداد رکعات میں اضافے کی وجہ سے تھا یا کم ہونے کی بناپر لیکن، آئندہ روایت میں جب ان سے حضرت حکم بیان کرتے ہیں تو یقین سے بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہرکی پانچ رکعات پڑھاد ی تھیں۔
اس کامطلب یہ ہے کہ ابراہیم نخعی ؒ نے جب اپنے شاگرد حکم کو حدیث بیان کی تو سجدے کی بنیاد کو جزم ووثوق سے بیان کیا اور جب اپنے شاگرد منصور کی حدیث بیان کی تو شک پڑ گیا کہ تعداد رکعات میں اضافہ ہوگیاتھا یا کہ کمی واقع ہوگئی تھی۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 563/1)

رسول اللہ ﷺ کو دوران نماز میں زندگی بھر چاردفعہ سہو ہوا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1۔
ظہر کی نماز میں قعدہ اول میں بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہوگئے۔
(صحیح البخاري،السھو، حدیث: 1225)

ظہرکی پانچ رکعات پڑھادیں۔
(صحیح البخاري، السھو، حدیث: 1226)

ظہر کی چار رکعات کے بجائے دوپرسلام پھیر دیا۔
(صحیح البخاري، السھو، حدیث: 1227)

عصر کی نماز میں تین رکعات پر سلام پھیر دیا۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1293۔
(574)
سہو ونسیان کے متعلق مکمل بحث آئندہ کتاب السهو میں ہوگی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 401   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:404  
404. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے سہو ظہر کی پانچ رکعات پڑھا دیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: آیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کیوں، اصل بات کیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا: آپ نے پانچ رکعات پڑھا دی ہیں، (یہ سنتے ہی) آپ نے اپنے دونوں پاؤں موڑے اور دو سجدے کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:404]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے بھی ثاب ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سہو کی صورت میں نماز کااعادہ نہیں فرمایا۔
آپ ﷺ نے سلام پھیر نے کے بعد لوگوں کی طرف توجہ فرمائی، یادآنے پر آپ نے پہلی نماز پر بنا فرمائی، کعبے کی طرف پشت کرنے کی صورت میں آپ حکماً نماز کے حکم میں تھے، اگرنماز سےخارج ہوجاتے تو سابقہ نماز پر بنانہ کرتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو انسان غلطی کی بنا پر قبلے سے انحراف کرے گا، اس کی نماز درست ہے۔
اعادے کی ضرورت نہیں۔
(عمدة القاري: 392/3)

اس روایت کا تعلق عنوان کے دوسرے جز سے اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں اپنے ظن کے مطابق عمل کیا جو خلاف واقعہ تھا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جب آپ کو توجہ دلائی تو آپ نے خلاف واقعہ کیے ہوئے عمل کو فساد نماز کا موجب نہیں ٹھہرایا، بلکہ اسی وقت سہو کے دو سجدے کیے۔
معلوم ہواکہ ظن اگرواقعے کے خلاف بھی ہوتو فساد صلاۃ کا موجب نہیں۔
اس روایت کاتعلق عنوان کے پہلے جز سے بھی ہو سکتا ہے کہ استقبال قبلہ اتنی اہم چیز ہے کہ سجدہ سہو کے لیے بھی اس کا وجوب ثابت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 404   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1226  
1226. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ ظہر کی پانچ رکعات پڑھیں۔ آپ سے عرض کیا گیا: آیا نماز میں کچھ اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ کیا؟ عرض کیا گیا: آپ نے پانچ رکعات پڑھی ہیں۔ تو آپ نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1226]
حدیث حاشیہ:
مذکورہ حدیث میں دوران نماز اضافے کی صورت بیان ہوئی ہے کہ اگر نماز میں کمی واقع ہو تو سلام سے پہلے سجدۂ سہو کیا جائے اور اگر کچھ اضافہ ہو جائے تو سلام کے بعد سجدۂ سہو ادا ہونا چاہیے۔
امام احمد ؒ کا موقف ہے کہ ہر حدیث کو اس کے محل میں استعمال کیا جائے اور جس بھول کی صورت میں کوئی حدیث نہ مل سکے تو وہاں سلام سے پہلے سجدۂ سہو کیا جائے، تاہم اس کے متعلق تفصیل ہم آئندہ حدیث: 1227 کے تحت بیان کریں گے، البتہ نماز میں اضافے کی صورت میں مسائل و احکام کو ہم بیان کرتے ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ لکھتے ہیں:
٭ اگر نمازی نے اپنی نماز میں دانستہ طور پر قیام، جلوس، رکوع یا سجدے کا اضافہ کیا ہے تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہے، کیونکہ اس نے صراحت کے ساتھ شریعت کی خلاف ورزی کی ہے۔
اگر بھول کر نماز میں اضافہ کیا ہے تو اس کی مندرجہ ذیل دو صورتیں ہیں:
٭ نماز سے فراغت تک اسے اضافہ یاد نہیں آیا۔
اس صورت میں اس کے ذمے صرف سجدۂ سہو کرنا ہے، مثلاً:
ایک شخص نے ظہر کی پانچ رکعت پڑھ لیں، لیکن اضافے کا علم اس وقت ہوا جب وہ تشہد میں بیٹھا ہوا تھا۔
ایسے حالات میں وہ تشہد پورا کرے اور سلام پھیرنے کے بعد سجدۂ سہو کرے۔
اس کے بعد دوبارہ سلام پھیرے۔
اگر اضافے کا علم سلام پھیرنے کے بعد ہوا ہے تب بھی اس کے ذمے سجدۂ سہو کرنا اور اس کے بعد سلام پھیرنا ہے۔
٭ اگر اضافے کا علم پانچویں رکعت کے دوران میں ہوا تو اسی وقت بیٹھ جائے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے، مثلاً:
ایک شخص نے ظہر کی پانچ رکعت ادا کیں اور پانچویں رکعت ادا کرتے ہوئے دوران قیام میں اسے اضافے کا علم ہو گیا تو وہ فوراً بیٹھ کر تشہد پورا کر کے سلام پھیرے، پھر سجدۂ سہو کرنے کے بعد دوبارہ سلام پھیرے۔
دوران نماز میں سلام پھیرنا بھی اضافے ہی کی ایک صورت ہے، کیونکہ نمازی نے اپنی نماز میں ایک سلام کا اضافہ کر دیا ہے۔
اگر نمازی نے دانستہ ایسا کیا ہے تو اس کی نماز باطل ہے، اگر بھول کر ایسا ہوا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں:
٭ نمازی نے بھول کر سلام پھیر دیا، لیکن اسے کافی دیر بعد اس غلطی کا احساس ہوا تو اسے ازسرنو نماز پڑھنا ہو گی، مثلاً:
ایک شخص نے نماز عصر ادا کرتے ہوئے دو رکعت پر سلام پھیر دیا، کافی دیر بعد اسے اپنی غلطی کا علم ہوا تو اس صورت میں اسے نماز عصر دوبارہ پڑھنی ہو گی۔
٭ اگر بھول کر سلام پھیرنے کے ایک دو منٹ بعد اسے پتہ چل گیا تو بقیہ نماز کو ادا کرے، پھر وہ سلام پھیرے۔
آخر میں دو سجدے کر کے دوبارہ سلام پھیرے، مثلاً:
ایک شخص نے نماز عصر ادا کرتے ہوئے دو رکعت پر سلام پھیر دیا لیکن اسے فوراً بعد اپنی غلطی کا پتہ چل گیا تو اسے چاہیے کہ وہ بقیہ دو رکعت ادا کرے اور سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔
اس کی دلیل حدیث: 1227 ہے جو آگے آ رہی ہے۔
وہاں اس کے متعلق مزید تفصیل بیان کی جائے گی۔
٭ اگر امام نے نماز مکمل ہونے سے پہلے بھول کر سلام پھیر دیا، اس کے پیچھے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کی نماز کا کچھ حصہ رہ گیا تھا اور وہ اپنی بقیہ نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے، اس وقت امام کو یاد آیا کہ اس نے نامکمل نماز پر سلام پھیر دیا تھا، وہ اسے مکمل کرنے کے لیے کھڑا ہو گیا تو اب بقیہ نماز ادا کرنے والوں کو اختیار ہے کہ دو دو باتوں میں سے ایک کو اپنائیں:
٭ وہ اپنی نماز کو جاری رکھیں اور فراغت کے بعد سجدۂ سہو کر لیں۔
٭ امام کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کر کے اس کی متابعت کریں۔
جب وہ سلام پھیر دے تو اپنی بقیہ نماز کو پورا کر لیں، سلام پھیر کر سجدۂ سہو کریں، پھر دوبارہ سلام پھیریں۔
یہ آخری صورت زیادہ بہتر اور احتیاط والی ہے۔
(سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1226   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6671  
6671. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں ظہر کی نماز پڑھائی تو نماز میں کچھ اضافہ یا کمی کر دی۔ (راوی حدیث) منصور نے کہا: معلوم نہیں ہو سکا کہ ابراہیم سے وہم ہوا ہے یا علقمہ بھول گئے ہیں۔ انہوں نے کہا: پوچھا گیا: اللہ کے رسول! نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: اصل بات کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: آپ نے اس طرح نماز پڑھائی ہے۔ ابن مسعود ؓ نے کہا: آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ دو سجدے کیے پھر فرمایا: یہ دو سجدے اس شخص کے لیے ہیں جسے معلوم نہ ہو کہ اس نے نماز میں کمی کی ہے یا زیادتی۔ اسے چاہیے کہ صحیح بات تک پہنچنے کے لیے اپنے ذہن پر زور ڈالے پھر باقی ماندہ نماز کو پرا کرے پھر سہو کے دوسجدے کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6671]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سہو و نسیان قابل معافی ہے، نماز دہرانے کی ضرورت نہیں، صرف شیطان کو رسوا کرنے کے لیے دو سجدے کر دیے جائیں تاکہ اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔
اسی طرح قسم کھانے کے بعد اگر کوئی سہو و نسیان اور بھول چوک سے اپنی قسم توڑ دے تو قابل مؤاخذہ نہیں اور نہ اس پر کوئی کفارہ ہی لازم آتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے یہ حدیثیں پیش فرمائی ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6671   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7249  
7249. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ہمیں ظہر کی پانچ رکعات پڑھا دیں تو آپ سے پوچھا گیا: کیا نماز میں اضافہ ہوگیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے کہا: آپ نے پانچ رکعات پڑھائی ہیں۔ آپ ﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7249]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث اپنے دواساتذہ سے بیان کی ہے۔
ایک تو حفص بن عمر ہیں۔
ان کی بیان کی ہوئی روایت میں ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
آپ نے پانچ رکعات پڑھائی ہیں۔
دوسرے استاد ابو الولید ہیں۔
ان کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے بتایا کہ آپ نے پانچ رکعات پڑھائی ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ ابو الولید کی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے انھوں نے کتاب السہو میں بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، السهو، حدیث: 1226)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دینے والا ایک شخص تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق کی اور سہو کے دو سجدے کیے۔
اگر ایک معتبر آدمی کا کہنا قابل اعتبار نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیوں کرتے؟ اس سے معلوم ہوا کہ ایک معتبر شخص کی روایت کو تسلیم کرنا ہر طرح سے درست ہے اور جو لوگ مطلق طور پر خبر واحد کو تسلیم نہیں کرتے ان کا موقف ان احادیث کے پیش نظر بالکل غلط ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7249