Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
114. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ
باب: وتر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1170
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ الْأَبَّارُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ، أَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ"، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: مَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَيْسَ لَكَ وَلَا لِأَصْحَابِكَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ طاق (یکتا و بے نظیر) ہے، طاق کو پسند فرماتا ہے، لہٰذا اے قرآن والو! وتر پڑھا کرو، ایک اعرابی (دیہاتی) نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں؟ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے لیے نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 336 (1417)، (تحفة الأشراف: 9627) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (1417)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 419

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1170 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1170  
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
آخری جملہ غالباً صحابی کا ارشاد ہے۔
جب اعرابی نے ارشا د نبوی ﷺ کا مطلب دریافت کرنا چاہا تو صحابی نے کہا کہ نماز تہجد اور اس طرح کے دوسرے مشکل اعمال پر تمہارا عمل پیرا ہونا مشکل ہے۔
اس لئے تم یہ مسائل دریافت نہ کرو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ جب اعرابی نے یہ سوال کیا۔
تو یہ جواب کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بجائے خود رسول اللہﷺ نے دیا ہو کہ تم لوگ صرف فرائض پر عمل پیرا رہو تو وہ تم لوگوں کی نجات کےلئے کافی ہے۔
نفلی نمازیں اور تہجد وغیرہ تو وہ لوگ ادا کرسکتے ہیں۔
جونیکیوں کا بہت زیادہ شوق رکھتے ہوں۔
واللہ أعلم۔

(2)
قرآن والوں سےاگر حافظ قرآن مراد ہوں۔
تو وتر سے نمازتہجد مراد ہوگی۔
اور اعرابی لوگ قرآن کے حافظ نہیں ہوتے تھے۔
اس لئے کہا گیا کہ اس مسئلے کا تعلق تم جیسے عوام سے نہیں۔

(3)
یہ روایت بعض حضرات کے نزدیک صحیح ہے۔
تفصیل کےلئے گزشتہ حدیث کا فائدہ نمبر 1 ملاحظہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1170