Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
114. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ
باب: وتر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1168
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ الْعَدَوِيِّ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَمَدَّكُمْ بِصَلَاةٍ لَهِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ الْوِتْرُ، جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ".
خارجہ بن حذافہ عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر مزید ایک نماز مقرر کی ہے، جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، وہ وتر کی نماز ہے، اللہ نے اسے تمہارے لیے عشاء سے لے کر طلوع فجر کے درمیان مقرر کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 336 (1418)، سنن الترمذی/الصلاة215 (452)، (تحفة الأشراف: 3450)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصلاة 208 (1617) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس سند میں عبد اللہ بن راشد مجہول ہیں، اس لئے «ھی خیر لکم من حمرالنعم» کا ٹکڑا ضیعف ہے، بقیہ حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 442 و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 108 و 1141، و ضعیف أبی داود: 255)

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله هي خير لكم من حمر النعم

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (1418) ترمذي (452)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 419

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1168 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1168  
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مذید لکھا ہے کہ مسند احمد کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔
نیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی یہ حدیث (لَهِيَ خَيْرٌ لَّكُمْ مِنْ حُمُرِ النّعم...)
وہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
کے بغیر صحیح ہے۔
علاوہ ازیں مسند احمد کی روایت جس کی بابت ہمارے محقق نے کہا ہے کہ یہ روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔
میں بھی یہ الفاظ یعنی سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
نہیں ہیں۔
لہٰذا مذکورہ روایت ان الفاظ کے بغیرقابل حجت اور قابل عمل ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة، مسند احمد بن حنبل، 271/39 والصحیحة، رقم: 1114، 108 والإرواء، رقم: 423)

(2)
نماز وتر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔

(3)
نماز وتر کا وقت عشاء کی نماز سے شروع ہوجاتا ہے۔
اگر عشاء اوّل وقت پڑھی جائے تو اس کے فوراً بعد وتر پڑھا جا سکتا ہے۔
تاہم رات کے آخری حصے میں نماز تہجد کے بعد پڑھنا افضل ہے۔

(4)
صبح صادق طلوع ہونے پر وتر کا وقت ختم اور نماز فجر کاوقت شروع ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1168   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1418  
´وتر کے مستحب ہونے کا بیان۔`
خارجہ بن حذافہ عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اللہ نے ایک ایسی نماز کے ذریعے تمہاری مدد کی ہے جو سرخ اونٹوں سے بھی تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اور وہ وتر ہے، اس کا وقت اس نے تمہارے لیے عشاء سے طلوع فجر تک مقرر کیا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1418]
1418. اردو حاشیہ: اس حدیث میں شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک صرف یہ الفاظ (وهي خيرٌ لكم من حُمرِ النعمِ]
اور یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بڑھ کر ہے ضعیف ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1418   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 296  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی نماز کے ساتھ تمہاری مدد فرمائی جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہت بہتر ہے۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! وہ کون سی نماز ہے؟ فرمایا وتر نماز جو نماز عشاء اور طلوع فجر کے درمیان ہے۔
اسے نسائی کے سوا پانچوں نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ احمد نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے اس کی مانند روایت نقل کی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 296»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب استحباب الوتر، حديث:1418، والترمذي، الصلاة، حديث:452، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1168، والحاكم:1 /306 وصححه، وأحمد كما في أطراف المسند لابن حجر وجامع المسانيد والسنن لابن كثير، وسقط مسند خارجة بن حذافة من المسند المطبوع، وقال ابن حبان: ((إسناده منقطع ومتنه باطل))، وروي أحمد:6 /7، حديث:34357، بسند صحيح عن رسول الله صلّي الله عليه وسلّم قال:((إن الله زادكم صلاة وهي الوتر، فصلّوها فيما بين العشاء إلي صلاة الفجر)) وحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أخرجه أحمد:181، 206، 208 وسنده ضعيف.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم دیگر محققین نے «وَھِيَ خَیْرٌ لَکُمْ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ» کے علاوہ باقی روایت کو صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح سنن ابی داود میں اس طرف اشارہ کیا ہے‘ نیز مسند احمد میں بھی حضرت عمرو بن عاص سے اسی مفہوم کی ایک روایت مروی ہے‘ اس میں بھی اس جملے کا ذکر نہیں اور اسے محققین نے صحیح بھی قرار دیا ہے‘ نیز ہمارے فاضل محقق نے بھی تحقیق و تخریج میں اس طرف اشارہ کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت اس جملے کے علاوہ دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۳۹ /۲۷۱) 2. دوسری حدیث جسے مصنف نے مسند احمد کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی ہی روایت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے بھی مروی ہے‘ تو مسند احمد میں مذکورہ روایت بعینہٖ انھی الفاظ کے ساتھ موجود نہیں بلکہ اس کے الفاظ اس طرح ہیں: «إنَّ اللّٰہَ عَزّوَجَلَّ قَدْ زَادَکُمْ صَلاَۃً‘ وَھِيَ الْوِتْـرُ» اور محققین نے اسے بھی حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۱۱ / ۲۹۲‘ ۲۹۳‘ ۲۹۴)
راویٔ حدیث:
«حضرت خارجہ بن حذافہ» ‏‏‏‏ خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ قرشی اور عدوی ہیں۔
(حذافہ میں حا پر ضمہ اور ذال پر تخفیف ہے۔
)
یہ اتنے شجاع تھے کہ ایک ہزار سوار کے برابر تھے۔
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تین ہزار شہ سواروں کی مدد طلب کی تو انھوں نے اس کے جواب میں تین بہادر و شجاع آدمی بھیج دیے جن میں ایک حضرت زبیر بن عوام‘ دوسرے حضرت مقداد بن اسود اور تیسرے حضرت خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہم تھے۔
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے کہنے پر مصر کے قاضی بنے۔
۴۰ ہجری میں رمضان المبارک میں شہید ہوئے۔
انھیں ایک خارجی نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سمجھ کر شہید کیا تھا کیونکہ خوارج نے حضرت علی‘ حضرت امیر معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو بیک وقت قتل کرنے کی سازش کی تھی۔
«عمر و بن شُعَیْب» ابو ابراہیم ان کی کنیت ہے۔
نام عمرو بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عاص سہمی قرشی مدنی ہے۔
طائف میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔
امام نسائی وغیرہ نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔
۱۱۸ ہجری میں وفات پائی۔
«شعیب» ثقہ تابعین میں سے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کے والد جن کا نام محمد تھا‘ ان کے زمانۂ صغر سنی میں وفات پا گئے تھے ‘ چنانچہ ان کی کفالت ان کے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مشہور صحابی نے کی۔
اپنے دادا سے ان کا سماع صحیح ہے‘ لہٰذا یہ اسناد نہ تو مرسل ہے اور نہ منقطع بلکہ متصل ہے اور حسن کے درجے سے کم نہیں ہے۔
ان کے دادا کا تعارف پہلے گزر چکا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 296   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 452  
´نماز وتر کی فضیلت کا بیان۔`
خارجہ بن حذافہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حجرے سے نکل کر) ہمارے پاس آئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک ایسی نماز کا اضافہ کیا ہے ۱؎، جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، وہ وتر ہے، اللہ نے اس کا وقت تمہارے لیے نماز عشاء سے لے کر فجر کے طلوع ہونے تک رکھا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 452]
اردو حاشہ:
1؎:
ایک روایت میں ((زَادَكُمْ)) کا لفظ بھی آیا ہے،
حنفیہ نے اس لفظ سے وتر کے واجب ہونے پر دلیل پکڑی ہے،
کیوں کہ زیادہ کی ہوئی چیز بھی اصل چیز کی جنس ہی سے ہوتی ہے،
تو جب پانچ وقتوں کی نماز واجب ہے تو وتر بھی واجب ہوئی،
علماء نے اس کا رد کئی طریقے سے کیا ہے،
ان میں سے ایک یہ کہ فجر کی سنت کے بارے میں بھی یہ لفظ وارد ہوا ہے جب کہ کوئی بھی اس کو واجب نہیں مانتا،
اسی طرح بدوی کی وہ حدیث جس میں وارد ہے کہ ان پانچ کے علاوہ بھی اللہ نے مجھ پر کوئی صلاۃ فرض کی ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ نہیں نیز ’مزید‘ کا مزید فیہ کے جنس سے ہونا ضروری نہیں ہے،
(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
تحفۃ الأحوذی)


نوٹ:

((هِيَ خَيْرٌمِّنْ حُمْرِ النَّعَمِ)) کا فقرہ ثابت نہیں ہے (اس کے راوی عبداللہ بن راشد مجہول ہیں،
لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح متابعات و شواہد موجود ہیں،
نیز ملاحظہ ہو:
تراجع الألبانی466)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 452