سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
99. بَابُ : مَا جَاءَ فِي السَّاعَةِ الَّتِي تُرْجَى فِي الْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کے دن دعا کی قبولیت کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1139
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: قُلْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ: إِنَّا لَنَجِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا قَضَى لَهُ حَاجَتَهُ، قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ:" فَأَشَارَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ بَعْضُ سَاعَةٍ"، فَقُلْتُ: صَدَقْتَ، أَوْ بَعْضُ سَاعَةٍ، قُلْتُ: أَيُّ سَاعَةٍ هِيَ؟، قَالَ:" هِيَ آخِرُ سَاعَه مِنْ سَاعَاتِ النَّهَارِ"، قُلْتُ: إِنَّهَا لَيْسَتْ سَاعَةَ صَلَاةٍ، قَالَ:" بَلَى، إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا صَلَّى ثُمَّ جَلَسَ لَا يَحْبِسُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ، فَهُوَ فِي الصَّلَاةِ".
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، میں نے کہا: ہم اللہ کی کتاب (قرآن) میں پاتے ہیں کہ جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت (گھڑی) ہے کہ جو مومن بندہ نماز پڑھتا ہوا اس کو پا لے اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو وہ اس کی حاجت پوری کرے گا، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اشارہ کیا کہ ”وہ ایک ساعت یا ایک ساعت کا کچھ حصہ ہے“ میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا، وہ ایک ساعت یا ایک ساعت کا کچھ حصہ ہے، میں نے پوچھا: وہ کون سی ساعت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دن کی آخری ساعت ہے“ میں نے کہا: یہ تو نماز کی ساعت نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں! بیشک مومن بندہ جب نماز پڑھتا ہے، پھر نماز ہی کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے، تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5342، ومصباح الزجاجة: 406)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/450، 451) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جمعہ کے دن دعا کی قبولیت کی ساعت کے سلسلہ میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں، بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ نماز جمعہ کی اقامت سے فراغت نماز تک ہے، اور بعض سے پتہ چلتا ہے اخیر دن میں ہے، لیکن سب سے زیادہ صحیح حدیث اس باب میں ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی ہے، جو صحیح مسلم میں ہے کہ ”یہ ساعت اس وقت ہے جب امام خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھے نماز کی تکبیر ہونے تک“ ابن حجر فرماتے ہیں: عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا قول کہ ”وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے“ اس باب میں سب سے زیادہ مشہور ہے، اور ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت سب سے زیادہ صحیح ہے، «واللہ اعلم»، اس گھڑی کو پوشیدہ رکھنے میں مصلحت یہ ہے کہ آدمی اس گھڑی کی تلاش میں پورے دن عبادت و دعامیں مشغول و منہمک رہے، «والعلم عند الله»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1139 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1139
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کے دن کا آخری حصہ بھی دعا کی قبولیت کاوقت ہے۔
(2)
گھڑی سے وقت کی کوئی متعین مقدار مراد نہیں ہوتی۔
بلکہ کچھ وقت مراد ہوتا ہے۔
ساعت سے کم یا گھڑی کا ایک حصہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ وقت بہت قلیل ہوتا ہے۔
(3)
نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ رہنا بہت ثواب کا کام ہے۔
بشرط یہ کہ ذکر وتلاوت وغیرہ میں وقت گزارا جائے اور فضول باتیں نہ کی جایئں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1139
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 371
´نماز جمعہ کا بیان`
سیدنا ابوبردہ رحمہ اللہ نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ان کے والد نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ”وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے کے وقت سے لے کر اختتام جماعت تک کے دوران میں ہے۔“ (مسلم) اور دارقطنی نے تو اس کو ترجیح دی ہے کہ یہ ابوبردہ کا قول ہے۔ اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ابن ماجہ نے اور جابر رضی اللہ عنہ سے ابوداؤد اور نسائی نے روایت نقل کی ہے کہ وہ گھڑی نماز عصر سے غروب آفتاب تک کے درمیانی عرصہ میں ہے۔
اس میں مختلف علماء کے چالیس اقوال ہیں۔ میں نے ان سب کو فتح الباری شرح بخاری میں لکھ دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 371»
تخریج: «أخرجه مسلم، الجمعة، باب في الساعة التي في يوم الجمعة، حديث:853.* الحديث المرفوع، وقول أبي بردة صحيحان محفوظان كلاهما، وحديث عبدالله بن سلام أخرجه ابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1139 وهو حديث حسن، وحديث جابر أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1048، والنسائي، الجمعة، حديث:1390، وسنده صحيح، وانظر فتح الباري:2 /416-422.»
تشریح:
راویٔ حدیث: «ابوبردہ» عامر بن ابو موسیٰ اشعری نام ہے اور آپ مشہور و معروف تابعین میں سے ہیں۔
انھوں نے اپنے والد‘ حضرت علی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے احادیث سنیں۔
۸۰ برس سے زیادہ عمر پا کر ۱۰۴ ہجری میں فوت ہوئے۔
بردہ کا اعراب
”با
“ پر ضمہ اور
”را
“ ساکن کے ساتھ ہے۔
«حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ» ان کی کنیت ابویوسف ہے۔
علمائے یہود میں سے بہت بڑے عالم اور حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔
بنو قینقاع سے تعلق تھا۔
مدینہ منورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری ہی پر اسلام قبول کر لیا تھا۔
یہ ان خوش بخت و خوش قسمت افراد میں سے ہیں جنھیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی۔
مدینہ منورہ میں ۴۳ ہجری میں وفات پا ئی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 371