Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
79. بَابٌ في فَضْلِ الْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1085
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ ، عَنْ شَدَّاد بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ: فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ؟ يَعْنِي: بَلِيتَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ".
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اور اسی دن پہلا اور دوسرا صور پھونکا جائے گا، لہٰذا اس دن مجھ پر کثرت سے درود (صلاۃ) بھیجا کرو، اس لیے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا، ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا درود (صلاۃ) آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ قبر میں بوسیدہ ہو چکے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین پہ انبیاء کے جسموں کے کھانے کو حرام قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4819، ومصباح الزجاجة: 383)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 207 (1047)، سنن النسائی/الجمعة 5 (1375)، مسند احمد (4/8) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (1047،1531) نسائي (1375) وانظر الحديث الآتي (1636)
عبد الرحمٰن ھو ابن يزيد بن تميم،انظر سنن أبي داود (1047) وأخطأ من زعم بأنه ابن يزيد بن جابر فالسند معلل
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 416

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1085 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1085  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کوہمارے شیخ نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام احمد بن حنبل 86، 85، 84/26، وإرواء الغلیل للألباني، رقم الحدیث: 4)
لہٰذا راحج یہی ہے کہ مذکورہ حدیث میں بیان کردہ باتیں درست اور قابل عمل ہیں۔
واللہ أعلم۔

(2) (نفخة)
 کا مطلب پھونک مارنا ہے۔
اس سے مراد ایک فرشتے (حضرت اسرافیل علیہ السلام)
کا اس خاص چیز میں پھونک مارنا ہے۔
جسے قران مجید میں صور کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔
یعنی قرنا یا بگل۔
یہ قیامت کے مراحل کی ابتداء ہے۔

(3)
نفخات تین ہیں۔
ایک نفخة سے اس وقت موجود تمام ذی روح مخلوق بے ہوش ہوجائےگی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّـهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ﴾  (الزمر: 68)
 صور میں پھونک ماری جائے گی۔
تو آسمان والے اور زمین والے سب کے سب بے ہوش ہوجایئں گے۔
مگر جسے اللہ چاہے دوسرے نفخة سے ہر چیز فنا ہوجائے گی۔
ارشاد ہے۔
﴿فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ ﴿13﴾ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً﴾ (الحاقة: 14، 13)
 چنانچہ جب صور میں ایک پھونک ماری جائےگی۔
اورزمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ کر دیئے جایئں گے۔
تیسرے نفخة سے تمام مخلوق دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔
ارشاد ہے۔
﴿ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ﴾ (الزمر: 68)
پھر دوبارہ صور پھونکا جائےگا۔
پس وہ ایک دم کھڑے ہوکر دیکھنے لگیں گے
(4)
درود شریف ایک افضل عمل ہے۔
اورجمعے کا دن افضل ہے لہٰذا جمعے سے درود شریف کو ایک مناسبت حاصل ہے جس کی بنا پر جمعے کے دن درود شریف زیادہ پڑھنا چاہیے۔

(5)
درود شریف پیش کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی جاتی ہے۔
تاکہ رسول اللہ ﷺ کو امت کے نیک اعمال سے خوشی حاصل ہو ورنہ تمام اعمال کا ثواب اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔

(6)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جونہی درود شریف پڑھا جاتا ہے۔
رسول للہ ﷺ کو فوراً اطلاع دی جاتی ہے۔
ممکن ہے کسی مناسب وقت پر اطلاع دی جاتی ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ براہ راست کسی کا درود نہیں سنتے۔
نہ قریب سے، نہ دور سے بلکہ فرشتے آپﷺ تک پہنچاتے ہیں۔
قریب سے سننے کی روایت سنداً صحیح نہیں۔

(7)
اس سے برزخی زندگی ثابت ہوتی ہے۔
اس زندگی پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔
لیکن اسے دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
بلکہ اس کی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے۔
قبر میں مدفون شخص کا اپنے جسم سے تعلق بھی عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے۔
ایسے مسائل میں اپنی رائے سے کچھ نہیں کہنا چاہیے۔
صرف اتنی بات مان لی جائے جس کی صراحت قرآن مجید یا صحیح حدیث میں موجود ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1085