سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
59. بَابُ : الْمُصَلِّي يُسَلَّمُ عَلَيْهِ كَيْفَ يَرُدُّ
باب: نمازی دوران نماز سلام کا جواب کیسے دے؟
حدیث نمبر: 1019
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" كُنَّا نُسَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ فَقِيلَ لَنَا: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نماز میں سلام کیا کرتے تھے، پھر ہمیں ارشاد ہوا کہ نماز میں خود ایک مشغولیت ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9525، ومصباح الزجاجة: 365)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العمل في الصلاة 3 (1201)، 15 (1216)، المناقب 37 (3875)، صحیح مسلم/ المساجد 7 (538)، سنن ابی داود/الصلاة 170 (923)، مسند احمد (1/376، 409) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جس میں نمازی کو مصروف رہنا چاہیے، اور دوسرا کام نہیں کرنا چاہئے، وہ کام جس میں نمازی کو مصروف رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، اور اس سے خشوع کے ساتھ دل لگانا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1019 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1019
اردو حاشہ:
فائدہ:
جب نماز میں بات چیت کرنے کی اجازت تھی تو سلام بھی کیا جاتا تھا بعد میں یہ حکم دے دیا گیا کہ کوئی نمازی نماز کے دوران میں دوسرے آدمی کو سلام نہ کرے۔
اس کے لئے نماز کی مصروفیت کافی ہے پوری توجہ سے ادعیہ اور اذکار میں مصروف رہے۔
لیکن گزشتہ احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازی خود تو کسی کو سلام نہیں کرسکتا۔
تاہم اسے سلام کیا جا سکتا ہے۔
وہ زبان سے تو سلام کاجواب نہیں دے سکتا۔
البتہ اشارے سے جواب دے سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1019