سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
58. بَابُ : مَنْ أَكَلَ الثُّومَ فَلاَ يَقْرَبَنَّ الْمَسْجِدَ
باب: لہسن کھا کر مسجد میں آنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 1016
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ الْمَكِّيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ شَيْئًا، فَلَا يَأْتِيَنَّ الْمَسْجِدَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اس پودے (پیاز و لہسن) سے کچھ کھائے تو مسجد میں ہرگز نہ آئے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7928)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان160 (853)، صحیح مسلم/المساجد 17 (561)، سنن ابی داود/الأطعمة 41 (3825)، سنن الدارمی/الأطعمة 21 (2097) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ دوسرے نمازیوں کو اس کی بدبو سے ایذا پہنچے گی، اور تکلیف ہو گی، یا فرشتوں کو تکلیف ہو گی، تمباکو، سگریٹ، بیڑی اور حقہ وغیرہ لہسن یا پیاز سے بھی زیادہ سخت بدبو والی چیزیں ہیں، اس لئے اس کے کھانے اور پینے سے پیدا ہونے والی بدبو کا حکم بھی پیاز اور لہسن ہی کا ہونا چاہئے، بلکہ اس سے بھی سخت۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1016 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1016
اردو حاشہ:
فائدہ:
مسلمان مرد کو بلاعذر نماز باجماعت سے پیچھے ر ہنا منع ہے اس حدیث کامطلب یہ نہیں کہ بدبودار چیز کا کھانا جماعت سے پیچھے رہ جانے کےلئے ایک معقول عذر ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ نماز کا وقت قریب ہو تو ان چیزوں کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔
اسی طرح خواتین گھر میں نماز پڑھتے وقت احتیاط رکھیں کہ نماز سے پہلے کچا لہسن یا پیاز استعمال نہ کریں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1016
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:853
853. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر فرمایا تھا: ”جو شخص اس پودے، یعنی لہسن کو کھائے اسے ہماری مسجد میں ہرگز نہیں آنا چاہئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:853]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کے خیال کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ خیبر کے لیے جاتے یا واپسی کے وقت لہسن کھانے کے متعلق مذکورہ حکم امتناعی جاری فرمایا۔
انہوں نے یہ سمجھا کہ حدیث میں مسجد سے مراد مسجد نبوی ہے، حالانکہ صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید ؓ سے مروی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے بعد یہ ہدایت جاری فرمائی تھی، اس بنا پر مسجد سے مراد مسجد نبوی نہیں بلکہ وہ جگہ ہے جو خیبر میں نماز ادا کرنے کے لیے تیار کی گئی تھی یا اس سے مراد جنس ہے کہ ایسا انسان مسلمانوں کی مساجد میں نہ آئے، چنانچہ مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ ابن جریج نے اپنے شیخ عطاء سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ حکم امتناعی مسجد حرام کے ساتھ خاص ہے یا تمام مساجد اس میں شامل ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حکم تمام مساجد کے لیے ہے۔
(المصنف لعبد الرزاق: 1/445،444) (2)
کسی بھی بدبودار چیز کو مسجد میں لے جانا اور اسے کھانے کے بعد مسجد میں آنا سخت منع ہے کیونکہ لوگوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ویسے بھی مسجد ایک پاک جگہ ہوتی ہے جہاں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، لہذا کسی صورت میں اس کے تقدس کو مجروح نہیں کرنا چاہیے۔
کچا لہسن، پیاز، مولی، سگریٹ اور بیڑی وغیرہ کا ایک ہی حکم ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ لہسن، پیاز اور مولی وغیرہ کو پکا کر استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی بو دور ہو جاتی ہے لیکن تمباکو نوشی اور بیڑی وغیرہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
دیار عرب کے علماء نے اس کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 853
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4215
4215. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر لہسن اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا۔ لہسن کھانے کی ممانعت کا ذکر حضرت نفع اور گھریلو گدھوں کی ممانعت حضرت سالم سے منقول ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4215]
حدیث حاشیہ:
گھر یلو گدھوں کا گوشت کھانے کی نہی تحریم کے لیے ہے جبکہ لہسن کھانے کی حرمت بطور تنزیہہ ہے، البتہ اسے پکا کر کھانے میں کوئی حرج نہیں۔
کچا لہسن کھا کر نمازباجماعت اور لوگوں کے مجمع میں نہیں آنا چاہیے۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہر وقت فرشتوں کی آمد ورفت رہتی تھی، اس لیے آپ نے کبھی لہسن استعمال نہیں فرمایا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4215