سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
51. بَابُ : فَضْلِ الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ
باب: پہلی صف کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 998
حَدَّثَنَا أَبُو ثَوْرٍ إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ خِلَاسٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ، لَكَانَتْ قُرْعَةٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ جان لیں کہ پہلی صف میں کتنا (ثواب) ہے تو اس کو پانے کے لیے قرعہ اندازی ہو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 28 (439)، (تحفة الأشراف: 14663)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صلاة الجماعة 2 (6)، مسند احمد (2/236، 271، 303، 374) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 998 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث998
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا اچھی بات ہے۔
(2)
جب استحقاق میں سب برابر ہوں۔
تو پھر قرعہ اندازی سے فیصلہ کرنا درست ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 998
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 541
´نماز عشاء کو عتمہ کہنے کے جواز کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ اس ثواب کو جو اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے میں ہے جان لیتے پھر اس کے لیے سوائے قرعہ اندازی کے کوئی اور راہ نہ پاتے، تو ضرور قرعہ ڈالتے، اور اگر لوگ جان لیتے کہ اول وقت نماز پڑھنے میں کتنا ثواب ہے، تو ضرور اس کی طرف سبقت کرتے، اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ عتمہ (عشاء) اور فجر میں آنے میں کیا ثواب ہے، تو وہ ان دونوں نمازوں میں ضرور آتے خواہ انہیں گھٹنے یا سرین کے بل گھِسٹ کر آنا پڑتا۔“ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 541]
541 ۔ اردو حاشیہ:
➊اس حدیث سے اذان اور پہلی صف کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے آدمی صف اول میں تب ہی کھڑا ہو سکتا ہے جب وہ مسجد میں پہلے آئے گا اور یہ بذات خود ایک فضیلت والا کام ہے، نیز امام کے قریب کھڑا ہونے سے اسے قرأت اچھی طرح سننے کا موقع ملے گا اور نماز میں اس کی توجہ اور خشوع وخضوع زیادہ ہو گا۔
➋اس حدیث سے نماز عشاء اور فجر کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان میں مشقت زیادہ ہے، اس لیے کہ یہ نیند کے اوقات ہیں۔
➌جائز امور میں قرعہ اندازی درست ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 541
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 672
´اذان دینے کے لیے قرعہ اندازی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ جان لیں کہ اذان دینے میں اور پہلی صف میں رہنے میں کیا ثواب ہے، پھر قرعہ اندازی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ پائیں تو وہ اس کے لیے قرعہ اندازی کریں گے، نیز اگر وہ جان لیں (کہ) ظہر اول وقت پر پڑھنے کا کیا ثواب ہے تو وہ اس کی طرف ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے، اور اگر وہ اس ثواب کو جان لیں جو عشاء اور فجر میں ہے تو وہ ان دونوں صلاتوں میں ضرور آئیں گے، گو چوتڑ کے بل گھسٹ کر آنا پڑے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 672]
672 ۔ اردو حاشیہ: اشارتاً معلوم ہوتا ہے کہ اگر کبھی قرعہ اندازی تک نوبت پہنچ جائے تو تنازع ختم کرنے کے لیے قرعہ بھی ڈالا جا سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 672
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 981
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں نماز پڑھنے میں (کس قدر اجر و ثواب ہے) پھر ان کے لیے اس کی خاطر قرعہ اندازی کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہے، تو وہ اس کے لیے قرعہ اندازی کریں اور اگر وہ جان لیں نماز کے لیے جلدی آنے میں کتنا اجر و ثواب ملتا ہے تو اس کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں، اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ عشاء... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:981]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اسْتَهمُوا عَلَيْهِ:
(اس اجرو ثواب کے حصول کے لیے)
قرعہ اندازی کریں،
یعنی سب لوگ یہ کام کرنے کی کوشش کریں اور سب بیک وقت پہنچنے کی بنا پر برابر کے حقدار ٹھہریں،
اور سب کے لیے گنجائش نہ ہونے کی بنا پر ترجیح کے لیے قرعہ اندازی کی ضرورت پیش آئے۔
(2)
التَّهْجِيرِ:
سخت دوپہر کے وقت آنا یا جلدی سے کام لینا اور ہر نماز کے لیے پہلے آنا۔
(3)
اسْتَبَقُوا إِلَيْهِ:
ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔
(4)
الْعَتَمَةِ:
رات کی ابتدائی تاریکی یا دیر اور تاخیر کرنا،
یہاں مراد عشاء کی نماز ہے۔
(5)
حَبْوًا:
حبا (ن)
حبوا ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلنا یا سرین کے بل گھسٹنا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں عشاء اور صبح کی نماز کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور ان کے عظیم اجروثواب اور خیر وبرکت کو بیان کیا گیا ہے،
کیونکہ ان نمازوں کے لیے نیند اور آرام کو چھوڑنا پڑتا ہے جو خاصا مشکل اور دقت طلب کام ہے اور اس وجہ سے یہ دونوں نمازیں منافقوں کے لیے دشوار تھیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 981
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2689
2689. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو اذان دینے اور صف اول میں کھڑے ہونے کا ثواب علم ہوجائے تو اس کے حصول کے لیے انھیں قرعہ اندازی بھی کرنی پڑے تو وہ اس کا بھی سہارا لیں۔ اگر انھیں معلوم ہو جائے کہ جلدی بروقت نماز پڑھنے میں کیا ثواب ہے تو ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگیں۔ اور اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ عشاء اور فجر کی نماز میں کیا ثواب ہے تو ان نمازوں میں ضرور شریک ہوں اگرچہ انھیں گھٹنوں کے بل آنا پڑے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2689]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث سے حضرت امام نے قرعہ اندازی کا جواز نکالا اور بتلایا کہ بہت سے معاملات ایسے بھی سامنے آجاتے ہیں کہ ان کے فیصلہ کے لیے بہتر طریقہ قرعہ اندازی ہی ہوتا ہے۔
پس اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
بعض لوگ قرعہ اندازی کو جائز نہیں کہتے، یہ ان کی عقل کا قصور ہے۔
حدیث ہٰذا سے اذان پکارنے اور صف اول میں کھڑے ہونے کی بھی انتہائی فضیلت ثابت ہوئی اور نماز سویرے اول وقت پڑھنے کی بھی جیسا کہ جماعت اہل حدیث کا عمل ہے کہ فجر، ظہر، عصر، مغرب اول وقت ادا کرنا ان کا معمول ہے۔
خاص طور پر عصر و فجر میں تاخیر کرنا عنداللہ محبوب نہیں ہے۔
عصر اول وقت ایک مثل سایہ ہوجانے پر اور فجر غلس میں اول وقت پڑھنا آنحضرت ﷺ کا یہی طرز عمل تھا۔
جو آج تک حرمین شریفین میں معمول ہے۔
(وباللہ التوفیق)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2689
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 615
615. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور صف اول میں کیا ثواب ہے، پھر وہ اپنے لیے قرعہ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ پائیں تو ضرور قرعہ اندازی کریں۔ اور اگر لوگوں کو علم ہو کہ نماز ظہر کے لیے جلدی آنے کا کتنا ثواب ہے تو ضرور سبقت کریں۔ اور اگر وہ جان لیں کہ عشاء اور فجر باجماعت ادا کرنے میں کتنا ثواب ہے تو ان دونوں (کی جماعت) میں ضرور آئیں اگرچہ انہیں سرینوں کے بل چل کر آنا پڑے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:615]
حدیث حاشیہ:
سلام کےبعد امام کاحالت تشہد سے پھر کر مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھنا مسنون ہے۔
اور اس طرح بیٹھے کہ دائیں جانب والوں کی طرف رخ قدرے زیادہ ہو اور بائیں طرف والے بھی اچھی طرح اس کی نظر میں ہوں۔
اس طرح بیٹھنا کہ بائیں جانب والوں کی طرف پشت ہوجائے صحیح نہیں ہے۔
اور مذکورہ عمل دائمی نہیں ہونا چاہیے بلکہ کبھی کبھی رخ بائیں جانب بھی ہونا چائیے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 615
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:615
615. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور صف اول میں کیا ثواب ہے، پھر وہ اپنے لیے قرعہ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ پائیں تو ضرور قرعہ اندازی کریں۔ اور اگر لوگوں کو علم ہو کہ نماز ظہر کے لیے جلدی آنے کا کتنا ثواب ہے تو ضرور سبقت کریں۔ اور اگر وہ جان لیں کہ عشاء اور فجر باجماعت ادا کرنے میں کتنا ثواب ہے تو ان دونوں (کی جماعت) میں ضرور آئیں اگرچہ انہیں سرینوں کے بل چل کر آنا پڑے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:615]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں اذان دینے کےلیے متعدد مؤذن رکھے جا سکتے ہیں، تاہم وقت کےلیے اذان صرف ایک مؤذن کہے گا کیونکہ قرعہ اندازی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب مؤذن متعدد ہوں۔
بعض حضرات نے حدیث میں وارد لفظ "استهام" سے تیر اندازی مراد لی ہے، لیکن امام بخاری کے نزدیک اس کے معنی قرعہ اندازی ہیں۔
انھوں نے حضرت سعد ؓ کا قرعہ سے متعلق قصہ بھی اس معنی کی تائید کے لیے پیش کیا ہے۔
اس کے علاوہ صحیح مسلم میں قرعہ کے صریح الفاظ بھی اس معنی کے مؤید ہیں۔
(فتح الباري: 128/2) (2)
قرعہ اندازی کے ذریعے سے کوئی شرعی حکم نہیں ثابت کیا جاسکتا بلکہ اسے مساویانہ حقوق رکھنے والوں کے درمیان نزاع کے موقع پر فیصلہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یعنی حل مشکلات، قطع نزاع، دفع ظنون اور تالیف قلبی کے لیے قرعہ ڈالا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں متعدد عنوان قائم کیے ہیں، مثلا:
٭هل يقرع في القسمة (كتاب الشركة: 6)
٭القرعة في المشكلات (كتاب الشهادات: 30)
٭القرعة بين النساء (كتاب النكاح: 98)
اس مقام پر امام بخاری ؒ کا مقصود اذان کی فضیلت بیان کرنا اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ایک مسجد میں نماز کے لیے صرف ایک ہی اذان دینی چاہیے، کیونکہ اگر متعدد اذانیں جائز ہوتیں تو قرعہ اندازی کی نوبت کیوں پیش آتی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 615
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2689
2689. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو اذان دینے اور صف اول میں کھڑے ہونے کا ثواب علم ہوجائے تو اس کے حصول کے لیے انھیں قرعہ اندازی بھی کرنی پڑے تو وہ اس کا بھی سہارا لیں۔ اگر انھیں معلوم ہو جائے کہ جلدی بروقت نماز پڑھنے میں کیا ثواب ہے تو ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگیں۔ اور اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ عشاء اور فجر کی نماز میں کیا ثواب ہے تو ان نمازوں میں ضرور شریک ہوں اگرچہ انھیں گھٹنوں کے بل آنا پڑے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2689]
حدیث حاشیہ:
زندگی میں بے شمار معاملات ایسے آتے ہیں کہ ان میں فیصلہ کرنے کے لیے قرعہ اندازی کی ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی بہتر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
ایسے حالات میں قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے۔
شریعت میں کئی ایک مواقع پر قرعہ اندازی کو جائز قرار دیا گیا ہے، مثلاً:
حقوق متعین کرنے میں جبکہ سب مشترکہ طور پر ان میں شریک ہوں، یا ملکیت ثابت کرنے کے لیے قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے۔
بہرحال اس کے شرعی طور پر جائز ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان کا موقف مبنی بر حقیقت نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2689
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 615
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے اور نماز پہلی صف میں پڑھنے سے کتنا ثواب ملتا ہے۔ پھر ان کے لیے قرعہ ڈالنے کے سوائے اور کوئی چارہ نہ باقی رہتا، تو البتہ اس پر قرعہ اندازی ہی کرتے اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ نماز کے لیے جلدی آنے میں کتنا ثواب ملتا ہے تو اس کے لیے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے... [صحيح بخاري ح: 615]
«باب الاستهام فى الأذان»
باب: اذان کے لیے قرعہ ڈالنے کا بیان۔
فائدہ:
”استہام“ کا لفظ ”سہم“ سے نکلا ہے، جس کا معنی تیر ہے۔ جب ایک چیز کے دعوے دار کئی ہوتے تو وہ ایک ایک تیر پر ایک ایک کا نام لکھ کر ایک تھیلے میں ڈال دیتے، پھر اس میں سے ایک تیر نکالتے، جس کا نام نکلتا اسے وہ چیز دے دی جاتی، پھر یہ لفظ ”قرعہ“ پر استعمال ہونے لگا خواہ وہ کسی طرح بھی ڈالا جائے، جیسے اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کے متعلق فرمایا: «فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُرْحَضِينَ» [الصافات: 141] ”پھر وہ قرعہ میں شریک ہوا تو ہارنے والوں میں سے ہو گیا۔“
«وَ يُذْكَرُ أَنَّ أَقْوَامًا اخْتَلَفُوا فِي الْأَذَانِ فَأَقْرَعَ بينهم سعد» اور ذکر کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اذان کہنے میں جھگڑا کیا تو سعد (بن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ نے ان کے درمیان قرعہ ڈالا۔
فائده:
[تاريخ طبري 566/3] میں طبری نے اپنی سند کے ساتھ ابو وائل شقیق بن سلمہ سے روایت کی ہے، انھوں نے کہا: ہم نے دن کے شروع حصے میں قادسیہ فتح کیا، واپس ہوئے تو مؤذن قتل ہو چکا تھا، اذان کا وقت ہوا تو کئی آدمیوں نے اذان میں جھگڑا کیا تو (امیر لشکر) سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے درمیان قرعہ ڈالا تو جس کا نام نکلا اس نے اذان کہی۔ [فتح الباري] ”قادسیہ“ عراق میں مشہور جگہ کا نام ہے جو ”قادس“ نامی آدمی کی طرف منسوب ہے۔ سنہ 15 ہجری میں عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں وہاں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان مشہور جنگ ہوئی جس سے آتش پرستوں کی کمر ٹوٹ گئی اور سلطنت فارس کا خاتمہ ہو گیا۔ اس جنگ کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔
فوائد:
➊ اذان اور پہلی صف میں کیا ہے:
ابوالشیخ کی ایک روایت میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے «مِنَ الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ» کے الفاظ آئے ہیں، یعنی اذان اور پہلی صف میں کیا خیر و برکت ہے۔ [فتح الباري] اس خیر و برکت کو مبالغہ کے لیے مبہم رکھا ہے، یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنی ہے، مطلب یہ کہ وہ اتنی ہے کہ اس کا بیان میں آنا مشکل ہے اور لوگوں کو اس کا علم ہونا مشکل ہے، اگر انھیں علم ہو جائے تو .... الخ۔
➋ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جھگڑا ختم کرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ قرعہ اندازی بھی ہے۔ جب ایک چیز کے متعدد دعوے دار ہوں اور کسی کے پاس ثبوت نہ ہو یا سب کے پاس ثبوت ہو مگر وہ صرف ایک ہی کو دی جاسکتی ہو تو قرعہ ڈال کر فیصلہ کر لیا جاتا ہے اور شریعت نے اسے معتبر مانا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے لیے متعدد ابواب قائم کیے ہیں، مثلاً:
«هَلْ يُقْرَعُ فِي الْقِسْمَةِ؟» [كتاب الشركة، باب: 6]، «الْقُرْعَةُ فِي الْمُشْكِلَاتِ» [كتاب الشهادات، باب: 30] اور «القَرْعَةَ بَيْنَ النِّسَاءِ» [كتاب النكاح، باب: 98] اور امام صاحب ان میں متعدد احادیث لائے ہیں، اس کے باوجود بعض لوگ قرعہ اندازی کو جُوا قرار دے کر اس کا انکار کرتے ہیں، اللہ تعالی انھیں حق بات ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 615