Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
50. بَابُ : إِقَامَةِ الصُّفُوفِ
باب: صفیں برابر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 994
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَوِّي الصَّفَّ حَتَّى يَجْعَلَهُ مِثْلَ الرُّمْحِ أَوِ الْقِدْحِ، قَالَ: فَرَأَى صَدْرَ رَجُلٍ نَاتِئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیزہ یا تیر کی طرح صف سیدھی کرتے تھے، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا دیکھا تو فرمایا: اپنی صفیں برابر کرو، یا اللہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 28 (436)، سنن ابی داود/الصلاة 94 (663و665)، سنن الترمذی/الصلاة 53 (227)، سنن النسائی/الإمامة 25 (811)، (تحفة الأشراف: 11620)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/270، 271، 272، 273، 274) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا، کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے درمیان پھوٹ ڈال دے گا، جس کی وجہ سے افتراق و انتشار عام ہو جائے گا، اور بعضوں نے کہا ہے کہ اس کے حقیقی معنی مراد ہیں، یعنی تمہارے چہروں کو گدّی کی طرف پھیر کر انھیں بدل اور بگاڑ دے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 994 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث994  
اردو حاشہ:
فائده:
قوم میں اختلاف واتفاق کے کچھ ظاہری اسباب ہوتے ہیں۔
اور کچھ روحانی اسباب بھی ہوتے ہیں۔
جن کا احساس عام لوگوں کو نہیں ہوتا۔
اختلاف کے انہی اسباب میں سے ایک سبب نماز کے دوران میں صف کا سیدھا نہ ہونا بھی ہے۔
جب کہ صف سیدھی کرنے سے دلوں میں اتفاق اور محبت پیدا ہوتی ہے۔
اس لئے اماموں کو اس چیز کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔
اور مقتدیوں کوبھی چاہیے کہ صفیں سیدھی رکھنے اور مل کرکھڑے ہونے پر خاص طور پر توجہ دیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 994   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 662  
´صفوں کو درست اور برابر کرنے کا بیان۔`
ابوالقاسم جدلی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا اپنی صفیں برابر کر لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا۔ قسم اللہ کی! (ضرور ایسا ہو گا کہ) یا تو تم اپنی صفوں کو برابر رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ، اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر اور جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف /حدیث: 662]
662۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر تعیل کی وضاحت کر دی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صفوں میں خوب جڑ کر کھڑے ہوتے تھے، حتی کہ نہ کوئی خلا باقی رہتا تھا، نہ کوئی ٹیڑھ۔
➋ شرعی تعلیمات سے اعراض کا نتیجہ آپس کی پھوٹ اور نفرت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے . . . . جیسے کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ «اعاذنا الله منه»
➌ یہ بھی معلوم ہوا کہ دل کا معاملہ ظاہری اعضاء و اعمال کے ساتھ بھی ہے، اگر ظاہری اعمال صحیح ہوں تو دل بھی صحیح رہتا ہے اور اس کے برعکس بھی آیا ہے کہ اگر دل صحیح ہو تو باقی جسم صحیح رہتا ہے۔
➍ امام کو چاہیے کہ اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے نمازیوں کو تکبیر تحریمہ سے پہلے تاکید کرے کہ آپس میں مل کر کھڑے ہوں۔ بلکہ عملاً صفیں سیدھی کرائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 662   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 811  
´امام صفیں کیسے درست کرے؟`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفیں درست فرماتے تھے جیسے تیر درست کئے جاتے ہیں، آپ نے ایک شخص کو دیکھا جس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا تھا، تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تم اپنی صفیں ضرور درست کر لیا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فر مادے گا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 811]
811 ۔ اردو حاشیہ:
➊ تیر سیدھا نہ ہو تو نشانے پر نہیں لگ سکتا اس لیے تیر باقاعدہ شکنجے کے ساتھ سیدھے کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے اہتمام سے صفیں سیدھی فرمایا کرتے تھے کیونکہ صفوں کی درستی دراصل پوری امت کی اصلاح ہے۔
➋ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ اس جملے کے مختلف مفہوم ہیں: اللہ تعالیٰ تمہارے چہرے پچھلی جانب لگا دے گا۔ تمہارے چہرے بگاڑ دے گا مسخ کر دے گا۔ تم میں اختلاف پیدا کر دے گا جس طرف کسی کا منہ اٹھے گا چل دے گا۔ اور یہی مفہوم اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 811   

  الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 663  
فوائد و مسائل
سوال: ہمارے امام صاحب نماز سے پہلے صفوں کی درستی پر بڑا زور دیتے ہیں اس کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: نماز باجماعت میں صف بندی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ صف درست کرنا اقامت صلاۃ میں سے ہے، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ»
صفیں درست کرو، بے شک صفوں کی درستی اقامت صلوٰۃ میں سے ہے۔
اسی طرح ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
«سووا صفوفكم فان تسوية الصف من تمام الصلاة» [مسلم، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف وإقامتها 433، أبوداؤد 668، ابن ماجه 993، أبوعوانة 38/2، دارمي 1266، أحمد 177/3]
صفیں درست کرو بےشک صف کی درستی نماز کے پوراکرنے سے ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صفوں کی درستی اقامت صلاۃ اور تمام صلاۃ سے ہے اور ان کا ٹیڑھا ہونا نماز کے نقصان کا موجب ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَقِيْمُوا الصَّفَّ فِي الصَّلَاةِ فَاِنَّ اِقَامَةَ الصَّفِّ مِنْ حُسْنِ الصَّلَاةِ» [بخاري، كتاب الأذان: باب إقامة الصف من تمام الصلاة 722، عبدالرزاق 2424]
نماز میں صف قائم کرو، بےشک صف کا قائم کرنا نماز کے حسن میں سے ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَحْسِنُوْا اِقَامَةَ الصُّفُوْفِ فِي الصَّلَاةِ» [أحمد 485/2]
نماز میں صفوں کی درستی اچھے طریقے سے کرو۔
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ [صحيح الترغيب والترهيب 496]
ان صحیح احادیث سے بھی معلوم ہوا کہ صف کا صحیح و درست رکھنا نماز کے حسن و خوبصورتی میں سے ہے اور اس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، اگر صف کی درستی صحیح نہ ہو گی تو نماز کے اندر نقصان لازم آئے گا۔ صفوں کی درستی اور ان کا سیدھا ہونا رکوع ہی میں نہیں بلکہ قیام ہی سے ضروری و لازمی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے صفیں درست کرتے تھے پھر نمازشروع کرتے تھے۔ اگر صف میں نقص ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح فرماتے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف درست کرتے تھے حتی کہ اسے نیزے یا تیر کی مانند کر دیتے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کاسینہ آگے بڑھا ہوا دیکھا تو فرمایا: اپنی صفوں کو درست کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ بعض روایات میں چہروں کی بجائے دلوں کا ذکر ہے۔ [ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب إقامة الصفوف 994، أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف 663، مسلم 436، بخاري 717۔ مختصر]
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک صفوں میں چلے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سینوں اور کندھوں کو چھوتے اور کہتے: اختلاف نہ کرو، تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے۔ اور کہا کرتے تھے: بے شک اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے پہلی صفوں پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔ [أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف 664، نسائي، كتاب الإمامة: باب كيف يقول الإمام الصفوف 812]
زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ صف کی درستی نماز شروع کرنے سے پہلے ہونی چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کا کام صفیں درست کرنا بھی ہے۔ اگر کہیں صف میں خلل ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح کرائے پھر نماز شروع کرے۔ لیکن افسوس کہ ائمہ مساجد آج اس بات کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ اقامت کہنے کے ساتھ ہی نماز شروع کر دی جاتی ہے۔ صفوں کی درستی نہیں کرائی جاتی۔ نماز میں ہر شخص کو اس طرح کھڑا ہونا چاہیے کہ اپنے ساتھ والے کے کندھے کے ساتھ کندھا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں پورا ملا ہو، درمیان میں کوئی خلا نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلا پر کرنے کا حکم دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
یقیناًً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صفوں کو قائم کرو اور کندھوں اور بازوؤں کو برابر کرو اور شگاف بند کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑو اور جو شخص صف کو ملائے گا اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا اور جو صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دے گا۔ [أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف666، نسائي، كتاب الامامة: باب من وصل صفاََ 818، حاكم 1/ 213]
امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ [صحيح الترغيب و التر هيب 492]
امام منذری رحمہ اللہ اس حدیث میں موجود لفظ «فرجات» کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«الْفُرُجَاتُ جَمْعُ فُرْجَةٍ وَهِيَ الْمَكَانُ الْخَالِيْ بَيْنَ الْاِثْنَيْنِ»
لفظ «فرجات» «فرجة» کی جمع ہے اور اس کا مطلب دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صف میں شگاف بند کرنے چاہئیں اور دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ لہٰذا جو لوگ دو نمازیوں کے درمیان چار انگلیوں یا اس سے زیادہ فاصلہ کرتے ہیں، ان کا عمل درست نہیں، انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئیے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«لَقَدْ رَأَيْتُ اَحَدَنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ وَلَوْ ذَهَبَتْ تَفْعَلُ ذٰلِكَ لَتَرَيٰ اَحَدَهُمْ كَاَنَّهُ بَغْلٌ شُمُوْسٌ» [ابن أبى شيبة 3524، 308/1، فتح الباري 211/2، عمدة القاري 260/5]
میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا پاؤں اپنے ساتھی کے پاؤں سے چپکا دیتا تھا اور اگر تو آج کسی کے ساتھ ایسا کرے تو ان میں سے ہر کسی کو دیکھے گا کہ وہ (ایسے بدکتا ہے) گویا وہ شریر خچر ہے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اپنی صفوں کو قائم کرو (یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہی) اللہ کی قسم تم ضرور اپنی صفیں سیدھی کرو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ صحابی فرماتے ہیں: پھر میں نے دیکھا کہ نمازی اپنا کندھا اور بازو اپنے ساتھی کے کندھے اور بازو سے، اپنا گھٹنا اس کے گھٹنے سے اور اپنا ٹخنہ اس کے ٹخنے سے ملا دیتا تھا۔ [ابوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف622، بخاري، كتاب الأذان: باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم تعليقًا، أحمد 276/4، ابن حبان 396، دارقطني 282/1]
ابوعثمان النہدی فرماتے ہیں:
«كُنْتُ فِيْمَنْ ضَرَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَدَمَهُ لِإِقَامَةِ الصَّفِّ فِي الصَّلَاةِ» [المحلي لابن حزم 58/4، موسوعة فقه عمر بن الخطاب رضى الله عنه ص/445، ابن أبى شيبة 3530، 309/1، فتح الباري 210/2]
میں ان لوگوں میں تھا جنہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نماز میں صف قائم کرنے کے لیے پاؤں پر مارا تھا۔
صالح بن کیسان سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایاکرتے تھے:
«لَاَنْ يَّخِرَّ ثِنْتَايَ اَحَبُّ اِلَيَّ مِنْ أَنْ أَرٰي فِي الصَّفِّ خَلَاءً وَلَا اَسُدُّهُ» [عبدالرزاق 2473، 57/2، ابن أبى شيبة 333/1، المحلي 59/4]
مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میرے دو دانت ٹوٹ جائیں اس بات سے کہ اگر میں صف میں شگاف دیکھوں اور اسے بند نہ کروں۔
درج بالا صحیح اور حسن احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز شروع کرتے وقت پہلے صفیں سیدھی کرنی چاہئیں۔ اگر صف میں کوئی خلا ہو تو اس کو بند کیا جائے۔ امام کا یہ فریضہ ہے کہ وہ صفیں درست کرائے۔ ہر نمازی اپنے بھائی کے کندھے کے ساتھ کندھا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں ملائے اور اپنے بھائی کے ہاتھ میں نرم ہو جائے۔ جب صف درست ہو جائے تو امام نماز شروع کرے اور یہ عمل قیام ہی سے شروع ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ قیام میں تو کندھوں میں اور پاؤں میں وقفہ ہو اور رکوع میں ملانا شروع کر دیں۔ اسی طرح پاؤں کی صرف ایک انگلی نہیں بلکہ پورا قدم ملایا جائے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ملایا کرتے تھے اور قدم ملانے سے شریر خچر کی طرح بدکنا نہیں چاہیے۔ پاؤں ملانے اور شگاف بند کرنے سے نمازی اللہ تعالیٰ سے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عمل کی توفیق بخشے اور ہمیں ہر قسم کے افراط و تفریط سے محفوظ رکھے۔
   احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 204   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 227  
´صفوں کو سیدھی کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں سیدھی کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دن آپ نکلے تو دیکھا کہ ایک شخص کا سینہ لوگوں سے آگے نکلا ہوا ہے، آپ نے فرمایا: تم اپنی صفیں سیدھی رکھو ۱؎ ورنہ اللہ تمہارے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 227]
اردو حاشہ:
1؎:
صفیں سیدھی رکھو کا مطلب یہ ہے صف میں ایک مصلی کا کندھا دوسرے مصلی کے کندھے سے اور اس کا پیر دوسرے کے پیر سے ملا ہونا چاہئے۔

2؎:
لفظی ترجمہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا کر دے گا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے درمیان پھوٹ ڈال دے گا،
تمہاری وحدت پارہ پارہ ہو جائے گی اور تمہاری شان و شوکت ختم ہو جائے گی،
یا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے چہروں کو گُدّی کی طرف پھیر کرانہیں بگاڑ دے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 227   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 979  
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو اس قدر سیدھا اور برابر کراتے تھے گویا کہ آپ ان کے ذریعہ تیروں کو سیدھا کریں گے، یہاں تک کہ آپ کو خیال ہوگیا کہ ہم نے آپ سے سمجھ لیا ہے (کہ ہم کو کس طرح سیدھا کھڑا ہونا چاہیے) اس کے بعد ایک دن آپ تشریف لائے اور نماز پڑھانے کی جگہ کھڑے ہوگئے، یہاں تک کہ قریب تھا آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع فرمادیں تو آپ نے ایک آدمی کو دیکھا اس کا سینہ صف سے آگے نکلا ہوا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:979]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
قِدَاح:
قِدح کی جمع ہے،
اہل عرب شکار یا جنگ میں استعمال کے لیے جو تیز لکڑی سے تراشتے تھے ان کو بالکل سیدھا اور برابر رکھنے کا بڑا اہتمام اور کوشش کرتے تھے،
اس لیے کسی چیز کی برابری اور سیدھے پن کی تعریف میں مبالغہ کے لیے کہتے ہیں،
وہ چیز ایسی برابر اور اس قدر سیدھی ہے کہ وہ تیروں کے سیدھا کرنے کے لیے معیار اور پیمانہ کا کام دے سکتی ہے۔
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کو اس قدر سیدھا اور برابر فرماتے تھے کہ کوئی آدمی بالکل آگے یا پیچھے نہ ہوتا۔
طویل مدت کی مسلسل کوشش اور تربیت کے بعد جب آپﷺ کو اطمینان ہو گیا کہ اب لوگوں کو صفوں کے سیدھا کرنے کی اہمیت اور طریقہ سمجھ آ گیا ہے تو آپﷺ نے اس اہتمام کو ترک کر دیا لیکن اس کے بعد ایک دن آپﷺ نے اس معاملہ میں ایک آدمی کی کوتاہی دیکھی تو بڑے جلال کے انداز میں فرمایا:
اللہ کے بندو! میں تم کو آگاہ کرتا ہوں،
اگر تم صفوں کو برابر اور سیدھا کرنے میں بے پروائی اور کوتاہی روا رکھو گے تو اللہ تعالیٰ اس کی سزا میں تمہارے چہرے مسخ کر دے گا۔
اور تمہاری صورتیں بدل جائیں گی یا تمہاری وحدت اور اجتماعیت پارہ پارہ کر دی جائے گی اور تم میں پھوٹ اور اختلاف پیدا ہو جائے گا جو امتوں اور قوموں کے لیے اس دنیا میں سو عذابوں کا ایک عذاب ہے۔
صفوں کو برابر اور سیدھا کرنے میں کوتاہی اور غفلت اس وقت عام ہو چکی ہے اور سزا کے طور پر امت میں انتشار واختلاف اور پھوٹ بھی عروج پر ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 979   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 717  
717. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنی صفوں کو ضرور سیدھا کرو بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:717]
حدیث حاشیہ:
یعنی مسخ کر دے گا۔
بعض نے یہ مراد لی کہ پھوٹ ڈال دے گا۔
باب کی حدیثوں میں یہ مضمون نہیں ہے کہ تکبیر کے بعد صفوں کو برابر کرو، لیکن امام بخاری ؒ نے ان حدیثوں کے دوسرے طریقوں کی طرف اشارہ کیا، چنانچہ آگے چل کر خود امام بخاری ؒ نے اسی حدیث کو اس طرح نکالا ہے کہ نماز کی تکبیر ہونے کے بعد آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور یہ فرمایا۔
اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع کرنے کو تھے کہ یہ فرمایا۔
امام ابن حزم ؒ نے ان حدیثوں کے ظاہر سے یہ کہا ہے کہ صفیں برابر کرنا واجب ہے اور جمہور علماء کے نزدیک سنت ہے اور یہ وعید اس لیے فرمائی کہ لوگ اس سنت کا بخوبی خیال رکھیں۔
برابر رکھنے سے یہ غرض ہے کہ ایک خط مستقیم پر کھڑے ہوں گے، آگے پیچھے نہ کھڑے ہوں۔
یا صف میں جو جگہ خالی رہے اس کو بھردیں۔
(مولانا وحید الزماں مرحوم)
علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
''ویحتمل أن یکون البخاري أخذ الوجوب من صيغة الأمر في قوله سووا صفوفکم و من عموم قوله صلوا کما رأیتموني أصلي و من ورود الوعید علی ترکهر الخ'' یعنی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے صیغہ امر سے سووا صفوفکم (صفوں کو سیدھا کرو)
سے وجوب نکالا ہو اور حدیث نبوی کے اس عموم سے بھی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی نماز پڑھو جیسی نماز پڑھتے ہوئے تم نے مجھ کو دیکھا ہے۔
صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو عثمان نہدی کے قدم پر مارا جب کہ وہ صف میں سیدھے کھڑے نہیں ہو رہے تھے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا بھی یہی دستور تھا کہ جس کو وہ صف میں ٹیڑھا دیکھتے وہ ان کے قدموں کو مارنا شروع کردیتے۔
الغرض صفوں کو سیدھا کرنا بےحد ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 717   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:717  
717. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنی صفوں کو ضرور سیدھا کرو بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:717]
حدیث حاشیہ:
(1)
نماز کے لیے صفوں کا سیدھا کرنا ضروری ہے، خواہ اقامت سے پہلے یا اس کے دوران میں یا اس کے بعد ہو، وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
امام بخاری ؒ نے پہلے ایک عنوان قائم کیا تھا کہ تکبیر کے وقت جب لوگ امام کو دیکھ لیں تو نماز کے لیے کھڑے ہو جائیں۔
اس کا تقاضا تھا کہ تکبیر کے بعد فوراً نماز کھڑی کر دینی چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے مذکور بالا عنوان قائم کر کے یہ تنبیہ فرمادی کہ اگر صفوں میں کچھ کمی رہ گئی ہوتو انھیں اقامت کے بعد بھی درست کیا جاسکتا ہے، بہر حال امام کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ نمازیوں کی صفیں بالکل سیدھی ہوں،ا ن میں کوئی شگاف نہ ہو۔
امام بخاری ؒ نے حدیث کے عموم سے استدلال کیا ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنے کےلیے وقت کی کوئی پابندی نہیں۔
حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں اقامت کے وقت یا اس کے بعد کے الفاظ بڑھا کر حسب عادت حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ تنبیہ اس وقت فرمائی جب تکبیر تحریمہ کہنے والے تھے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 719)
اور حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی تو اس وقت ہماری طرف متوجہ ہو کر مذکورہ تنبیہ ارشاد فرمائی۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 979(436)
(2)
صفوں کو سیدھا کرنا ضروری ہے۔
اگر اس سلسلے میں کوتاہی کی تو ظاہری مخالفت کا اثر باطن پر پڑے گا کہ لوگوں کے درمیان محبت والفت نہیں رہے گی بلکہ ان کے دلوں میں اختلافات پیدا ہوں گے جن سے ان کی وحدت پارہ پارہ ہوگی اور دشمنوں پر ان کا رعب بھی ختم ہوجائے گا، جیسا کہ سنن ابو داؤد میں ہے کہ صفوں کو سیدھا کرو بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کردے گا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 662)
یہ بھی ممکن ہے کہ صفوں کے متعلق شرعی حکم کی مخالفت کرنے سے چہروں میں بگاڑ پیدا ہوجائے، انھیں گدی کی جانب کردیا جائے یا انھیں بالکل مسخ کرکے کسی حیوان کی صورت میں تبدیل کردیا جائے۔
بعض روایات سے اس مفہوم کی بھی تائید ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 269/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 717