Note: Copy Text and to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
50. بَابُ : إِقَامَةِ الصُّفُوفِ
باب: صفیں برابر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 992
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ السُّوَائِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا"، قَالَ: قُلْنَا: وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ:" يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ، وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ".
جابر بن سمرہ سوائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس باندھتے ہیں؟، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صف باندھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں، اور صف میں ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 27 (430)، سنن ابی داود/الصلاة 94 (661)، سنن النسائی/الإمامة 28 (817)، (تحفة الأشراف: 2127)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/101) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 992 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث992  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
شریعت اسلامیہ میں عبادت کے طریقے فرشتوں کی عبادت کے طریقوں سے مشابہ ہیں۔
اور یہ بہت بڑا شرف ہے۔

(2)
فرشتے اللہ کی عبادت کےلئے صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔

(3)
جب تک پہلی صف مکمل نہ ہوجائے۔
دوسری صف شروع نہیں کرنی چاہیے۔
اس طرح دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی صف بنائی جائے۔

(4)
صف میں کھڑے ہوتے وقت ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوناچاہیے۔
دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے۔
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوتے تھے۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، الأذان، باب الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف، حدیث: 725)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 992   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 661  
´صفوں کو درست اور برابر کرنے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس کرتے ہیں؟، ہم نے عرض کیا: فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صف بندی کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے اگلی صف پوری کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے خوب مل کر (جڑ کر) کھڑے ہوتے ہیں (ان کے مابین کوئی خلا نہیں رہتا)۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف /حدیث: 661]
661۔ اردو حاشیہ:
➊ صف میں جڑ کر کھڑے ہونے سے صف سیدھی ہو جاتی ہے۔
➋ معلوم ہوا کہ صالحین کا عمل اختیار کرنا شرعاً مطلوب ہے اور مسلمان کو ہمیشہ ان سے مشابہت کا حریص رہنا چاہیے۔ بالخصوص نمازوں میں صف بندی کے معاملے میں۔ سورۃ فاتحہ میں اسی دعا کی تعلیم دی گئی ہے کہ «اهدنا الصراط المستقيم . صراط الذين انعمت عليهم»
➌ پہلے پہلی صف مکمل ہو تب دوسری بنائی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 661   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:920  
920- سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نمازادا کرتے تھے ہم میں سے کوئی ایک شخص جب سلام پھیرتا تھا، تو اپنے ہاتھ کے ذریعے دائیں طرف اور بائیں طرف اس طرح کہتا تھا: السلام علیکم، السلام علیکم۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تم اپنے ہاتھ یوں ہلاتے ہو، جس طرح یہ سرکش گھوڑوں کی دم ہوتے ہیں۔ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ آدمی اپنا ہاتھ اپنے زانوں پر رکھے اور پھر اپنے دائیں طرف موجود اپنے بھائی کو سلام کرے اور بائیں طرف موجود اپنے بھائی کو سلام کرتے ہوئے السلام علیکم و رحمتہ اللہ، السلام علیکم و رحمتہ الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:920]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کے آخر میں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے وقت ہاتھوں کے ساتھ دائیں اور بائیں طرف اشارے نہیں کرنے چاہئیں، بلکہ ہاتھوں کو رانوں پر ہی رکھتے ہوئے سلام کہنا چاہیے بعض الناس کو بہت بڑی غلطی لگی ہے جو اس حدیث سے عدم رفع الیدین ثابت کرتے ہیں، حالانکہ اس حدیث میں وضاحت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سلام کہتے وقت اپنے ہاتھوں کو دائیں بائیں مارتے تھے لیکن افسوس اندھی تقلید قرآن و حدیث کی دشمن ہے، اور مقلد کی نظر میں اپنے امام کا احترام ہوتا ہے نہ کہ قرآن و حدیث کا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 919