Note: Copy Text and to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
43. بَابُ : مَنْ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ
باب: لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ امام کا کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 971
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ هَيَّاجِ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَرْحَبِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" ثَلَاثَةٌ لَا تَرْتَفِعُ صَلَاتُهُمْ فَوْقَ رُءُوسِهِمْ شِبْرًا: رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ، وَأَخَوَانِ مُتَصَارِمَانِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سروں سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتی: ایک وہ شخص جس نے کسی قوم کی امامت کی اور لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں، دوسرے وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو، اور تیسرے وہ دو بھائی جنہوں نے باہم قطع تعلق کر لیا ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5635، ومصباح الزجاجة: 351) (منکر)» ‏‏‏‏ (اس سیاق سے یہ حدیث منکر ہے، «اخوان متصارمان» کے بجائے «العبدالآبق» کے لفظ سے حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: غایة المرام: 248، ومصباح الزجاجة: 353، بتحقیق الشہری)

قال الشيخ الألباني: ضعيف بهذا اللفظ وحسن بلفظ العبد الآبق مكان أخوان متصارمان

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عبيدة بن الأسود: ”صدوق ربما دلس“ (انظر ضعيف سنن الترمذي: 2213) وعنعن
وحديث الترمذي (360 وسنده حسن) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 412
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 971 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث971  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز کا آسمان کی طرف بلند ہونا قبولیت کی علامت ہے۔
اور بلند نہ ہونا عدم قبولیت کو ظاہر کرتا ہے مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی۔

(2)
بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں۔
جن کی وجہ سے بعض خاص نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔
جیسے اس حدیث میں مذکور گناہ نماز کے ضائع ہونے کا باعث ہیں۔

(3)
عورت کے لئے ضروری ہے کہ خاوند کوخوش رکھنے میں کوتاہی نہ کرے۔
خصوصاً صنفی تعلقات کا فرض ادا کرنے سے انکار نہ کرے الا یہ ک معقول شرعی عذر ہو۔
اس صورت میں خاوند کو اس کی مجبوری کا احساس کرنا چاہیے۔

(4)
جس طرح عورت کےلئے ضروری ہے کہ مرد کی صنفی خواہش پوری کرے۔
اسی طرح مرد کا بھی فرض ہے کہ عورت کی خواہش کا لحاظ رکھے اور اس کا صنفی حق ادا کرے۔
حدیث میں صرف عورت کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ عام طور پر تکلیف یا انکار کا اظہار عورت کی طرف سے ہوتا ہے مرد کیطرف سے نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 971