Note: Copy Text and to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
41. بَابُ : النَّهْيِ أَنْ يُسْبَقَ الإِمَامُ بِالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
باب: امام سے پہلے رکوع یا سجدہ میں جانا منع ہے۔
حدیث نمبر: 961
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا يَخْشَى الَّذِي يَرْفَعُ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يُحَوِّلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے، کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر سے بدل دے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 25 (427)، سنن ابی داود/الصلاة 76 (623)، سنن الترمذی/الصلاة 292 (582)، سنن النسائی/الإمامة 38 (829)، (تحفة الأشراف: 14362)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 53 (691)، مسند احمد (2/260، 271، 425، 456، 469، 472، 504)، سنن الدارمی/الصلاة 72 (1355) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی گدھے کی طرح اس کو بے وقوف بنا دے، اور آخرت میں وہ گدھے کی طرح اٹھے، بعضوں نے کہا کہ دنیا میں بھی گدھے کی طرح مسخ ہو سکتا ہے، اس لئے کہ یہ مسخ خاص ہے اور اس امت میں وہ ہو سکتا ہے، البتہ مسخ عام نہیں ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

وضاحت: ۱؎: یعنی گدھے کی طرح اس کو بے وقوف بنا دے، اور آخرت میں وہ گدھے کی طرح اٹھے، بعضوں نے کہا کہ دنیا میں بھی گدھے کی طرح مسخ ہو سکتا ہے، اس لئے کہ یہ مسخ خاص ہے اور اس امت میں وہ ہو سکتا ہے، البتہ مسخ عام نہیں ہو گا۔
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 961 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث961  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس قدر سخت وعید سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام سے پہلے سجدے اور رکوع سے سر اٹھانا بہت بڑا گنا ہ ہے۔

(2)
عام طور پراللہ تعالیٰ گناہوں کی اس قسم کی سزا دنیا میں نہیں دیتا لیکن ایسا ممکن ہے کہ کسی شخص کو دنیا میں ہی سزا مل جائے۔
بالخصوص جب وہ عناد یا تکبر کی بنا پر گناہ کا ارتکاب کرے۔

(3)
امام سے پہلے سراٹھا لینے سے اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
اس جلد بازی کے ذریعے سے وہ امام سے پہلے نماز سے فارغ تو نہیں ہو سکتا۔
پھر ایسی بے فائدہ حرکت حماقت ہی تو ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 961   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 623  
´امام سے پہلے سر اٹھانے یا رکھنے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص (امام سے پہلے) اپنا سر اٹھاتا ہے جبکہ وہ امام سجدے میں ہو، اسے ڈرنا چاہیئے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کا سر گدھے کے سر جیسا نہ بنا دے یا اس کی شکل گدھے کی شکل نہ بنا دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 623]
623۔ اردو حاشیہ:
نماز کے اہم واجبات سے غافل رہنا انتہائی جاہل اور غبی ہونے کی علامت ہے، اسی معنی میں یہ وعید سنائی گئی ہے، لہٰذا مقتدی کو ہر حال میں اپنے امام کے پیچھے رہنا واجب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 623   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 829  
´رکوع، سجود وغیرہ میں امام سے سبقت کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا سر امام سے پہلے اٹھا لیتا ہے کیا وہ (اس بات سے) نہیں ڈرتا کہ ۱؎ اللہ اس کا سر گدھے کے سر میں تبدیل نہ کر دے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 829]
829 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یعنی بطور سزا کیونکہ اس کا یہ فعل حماقت میں گدھے جیسا ہے۔ گدھا حماقت میں ضرب المثل ہے یا اگر فعل کے مطابق شکل بنائی جائے تو پھر ایسے شخص کا چہرہ گدھے جیسا ہونا چاہیے یا اسے گدھے سے تشبیہ دی ہے۔
➋ یہ حدیث تشدید پر محمول ہے۔ جب کوئی شخص امام سے قبل نماز سے فارغ نہیں ہو سکتا تو پھر پہلے سر اٹھانا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن ظاہری مفہوم کے مطابق اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے سر کو گدھے کے سر جیسا بھی بنا سکتا ہے۔ اس وعید سے ڈرتے رہنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 829   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1019  
1019- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جو شخص امام سے پہلے اپنے سرکو اٹھاتا ہے یا جھکاتا ہے، تو اس کی پیشانی شیطان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ امام ابوبکر حمیدی بیان کرتے ہیں: سفیان بعض اوقات اس روایت کو مرفوع حدیث کے طور پر نقل کرتے ہیں۔ بعض اوقات مرفوع حدیث کے طور پر نقل نہیں کرتے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1019]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں امام کی اقتدٱ کرنی چاہیے، نہ ہی اس سے پہلے سجدہ و رکوع میں جانا چاہیے، اور نہ ہی امام سے پہلے سجدہ و رکوع سے سر اٹھانا چاہیے۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ شیطان ہمیشہ قرآن و حدیث کی مخالفت پر اکسا تا ہے ہمیں شیطان کی مخالفت کرنی چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1018   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:691  
691. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ سلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’‘تم میں سے جو شخص اپنا سر امام سے پہلے اٹھاتا ہے، اسے کیا اس بات کا خوف نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر جیسا بنا دے؟ یا اس کی صورت گدھے کی صورت جیسی بنا دے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:691]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ اس حدیث میں امام سے پہلے سر اٹھانے والے کے لیے وعید کا بیان ہے، تاہم دوران نماز میں کوئی کام بھی امام سے پہلے سرانجام دینا منع ہے۔
اس بارے میں ایک اور روایت بھی مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو شخص امام سے پہلے سر اٹھاتا ہے یا نیچے رکھتا ہے، اس کی پیشانی شیطان کے قبضے میں ہے۔
اس کا ذکر حافظ ابن حجرؒ نے بھی فتح الباری (237/2)
میں کیا ہے لیکن یہ روایت مرفوعا صحیح نہیں۔
دیکھیے:
(المعجم الأوسط: 5/385، حديث: 7692)
جمہور کے نزدیک ایسا کرنے والا گناہ گار تو ہوگا، لیکن اس کی نماز ہوجائے گی، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ دانستہ ایسا کرنے والے کی نماز باطل ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی کی نماز سرے سے نہیں ہوتی، امام احمد وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے کیونکہ نہی فساد کا تقاضا کرتی ہے۔
اگر اس کی نماز درست ہوتی تو اس کے لیے ثواب کی امید رکھی جاتی اور عقاب کا اندیشہ نہ ہوتا۔
(فتح الباري: 238/2)
علامہ سندھی ؒ فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی کی نماز کو درست کہنے والوں پر تعجب ہے۔
یہ حضرات امام سے آگے نماز پڑھنے والے کی نماز کو تو درست نہیں کہتے، لیکن افعال میں آگے بڑھنے والے کی نماز کو درست قرار دیتے ہیں، حالانکہ اقتدا نماز کے افعال ہی میں کرنی ہوتی ہے اس اعتبار سے اگر جگہ میں امام سے آگے بڑھنے والے کی نماز فاسد ہے تو افعال میں آگے بڑھنے والے کی نماز بالاولیٰ فاسد ہونی چاہیے۔
(حاشیة السندي: 128/1) (2)
بعض لوگ حدیث میں بیان کردہ وعید کو مجاز پر محمول کرتے ہیں، یعنی ایسے شخص کی بے وقوفی اور کم عقلی کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ اس امت میں مسخ جائز نہیں، علاوہ ازیں بکثرت اس حکم کی مخالفت کے باوجود کوئی واقعہ بھی تبدیلئ شکل کے متعلق منقول نہیں ہوا۔
یہ موقف مبنی بر حقیقت نہیں ہے، کیونکہ اس امت میں مسخ کی نفی علی الاطلاق درست نہیں۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
اس امت کے آخری دور میں خسف، مسخ اور قذف واقع ہوگا۔
رہی یہ بات کہ ایسا کوئی واقعہ رونما کیوں نہیں ہوا؟ تو یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ ایسے شخص کو فوری طور پر سزا نہیں دی جاتی، کتنی ہی سزائیں ایسی ہیں کہ بندہ ان کا مستحق بن جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرماتا ہے، نیز حدیث سے صرف یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسا آدمی اس سزا کا مستحق ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے لوگوں کو ڈھیل دے رکھی ہو۔
(عمدة الأحکام: 313/4) (3)
حافظ ابن حجر ؒ نے اس بحث کے آخر میں بڑی عمدہ بات لکھی ہے کہ امام سے مسابقت کا سبب بندے کی جلد بازی ہوتی ہے تو ایسے انسان کو سوچنا چاہیے کہ وہ جتنی بھی جلدی کرے آخر سلام تو اس نے امام کے ساتھ ہی پھیرنا ہے۔
(فتح الباري: 238/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 691