سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
37. بَابُ : الْمُرُورِ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي
باب: نمازی کے آگے سے گزرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 946
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهِبٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُكُمْ مَا لَهُ فِي أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْ أَخِيهِ مُعْتَرِضًا فِي الصَّلَاةِ، كَانَ لَأَنْ يُقِيمَ مِائَةَ عَامٍ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الْخَطْوَةِ الَّتِي خَطَاهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کوئی اس گناہ کو جان لے جو اپنے بھائی کے آگے سے نماز کی حالت آڑے میں گزرنے سے ہے تو وہ ایک قدم اٹھانے سے سو سال کھڑے رہنا بہتر سمجھے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15489، ومصباح الزجاجة: 340)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/371) (ضعیف)» (اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن عبدالرحمن اور ان کے چچا عبید اللہ بن عبداللہ دونوں ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 946 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسین میمن حفظہ الله، فوائد و مسائل،ابن ماجہ 946
نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے متعلق نے والے سے متعلق۔
«عن أبى جهيم الأنصاري قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم لأن يقوم أحدكم أربعين خير له من ان يمر بين يديه، قال: ما أدرى أربعين يوماً أو أربعين شهراً أو أربعين سنة»
”سیدنا ابوجہیم انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم میں سے ایک (شخص) چالیس تک کھڑا رہے تو یہ اس کے لئے نمازی کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ چالیس سے چالیس دن مراد ہیں یا چالیس مہینے یا چالیس سال۔“
[تخريج: رواه مسلم 507، وابن ماجه، والبخارى، وأبوداؤد، والترمذي، والنسائي، والدارمي، وأحمد، والبهيقي، والبغوى، وعبدالرزاق 2322 ش]
جبکہ دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ:
«عن أبى هريرة. قال: قال رسول صلى الله عليه وسلم ”لويعلم الذى يمر بين يدى أخيه معترضاً وهوينا جي ربه لكان ان يقف مكانه مئة عام خير له من الخطوة التى خطا .“»
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر اپنے رب سے سرگوشی کرنے والے نمازی بھائی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ (اس پر کتنا گناہ ہے) تو وہ اپنی اس جگہ سو سال ٹہرا رہے یہ اس کے لئے بہتر ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرے۔“
[تخريج: رواه أحمد 371/2، وابن ماجه، و ابن حبان، وابن خزيمه]
تطبيق:
➊ دونوں روایتیوں میں فیصلہ کن روایت ابو جہیم رضی اللہ عنہ کی ہے جسمیں چالیس کا عدد مذکور ہے جس کی مزید تفصیل مسند بزار میں موجود ہے۔ «اربعين خريفاً» یعنی چالیس سال اور رہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اس کو ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے اس کی سند انتہائی ضعیف ہے اس کی سند میں عبدالرحمن بن موہب ہے جو کہ ضعیف ہے۔ [تهذيب التهذيب جلد 5 ص 395]
➋ امام طحاوی شرح مشکل الآثار 1/48 میں فرماتے ہیں: مجموعہ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اربعین میں موجود جو اخفاء ہے اس سے مراد سال ہے نہ کہ مہینہ یا دن۔
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہمارے نزدیک ابو جہیم کی حدیث سے متاخر ہے اس لئے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے لئے جو وعید ہے وہ ابو جہیم والی روایت کی وعید سے زیادہ ہے اور ابو جہیم کی روایت میں تخفیف ہے۔ نیز ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث چونکہ سخت ضعیف ہے اس لئے استدلال کے قابل نہیں ہے۔
سیدنا ابو جہیم رضی اللہ عنہ کی حدیث بالکل صحیح اور واضح ہے۔ اور راوی حدیث نے اس حدیث کے بعد ایک شک بیان کیا ہے کہ چالیس سے کیا مراد ہے؟ آیا چالیس سال یا چالیس مہینے یا چالیس دن۔ تو یہ شک والی بات مرفوع روایت میں نہیں ہے بلکہ راوی حدیث کا ایک گمان ہے۔ البتہ مسند بزار کی روایت سے واضح ہو جاتا ہے کہ چالیس سے مراد چالیس سال ہے۔
احادیث متعارضہ اور ان کا حل، حدیث/صفحہ نمبر: 7