Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
17. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يَمْنَعَنَّكُمْ مِنْ سَحُورِكُمْ أَذَانُ بِلاَلٍ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روکے۔
حدیث نمبر: 1919
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَالْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:" أَنَّ بِلَالًا كَانَ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ لَا يُؤَذِّنُ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ"، قَالَ الْقَاسِمُ: وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ أَذَانِهِمَا إِلَّا أَنْ يَرْقَى ذَا، وَيَنْزِلَ ذَا.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اور (عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہی روایت) قاسم بن محمد سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ بلال رضی اللہ عنہ کچھ رات رہے سے اذان دے دیا کرتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان نہ دیں تم کھاتے پیتے رہو کیونکہ وہ صبح صادق کے طلوع سے پہلے اذان نہیں دیتے۔ قاسم نے بیان کیا کہ دونوں (بلال اور ام مکتوم رضی اللہ عنہما) کی اذان کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک چڑھتے تو دوسرے اترتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1919 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1919  
حدیث حاشیہ:
علامہ قسطلانی ؒ نے نقل کیا ہے کہ صحابہ ؓ کی سحری بہت قلیل ہوتی تھی، ایک آدھ کھجور یا ایک آدھ لقمہ، اس لیے یہ قلیل فاصلہ بتلایا گیا۔
حدیث ہذا میں صاف مذکور ہے کہ بلال ؓ صبح صادق سے پہلے اذان دیا کرتے تھے یہ ان کی سحری کی اذان ہوتی تھی اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ فجر کی اذان اس وقت دیتے جب لوگ ان سے کہتے کہ فجر ہو گئی ہے کیوں کہ وہ خود نابینا تھے۔
علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں:
و المعنی في الجمیع أن بلالا کان یؤذن قبل الفجر ثم یتربص بعد للدعاء و نحوہ ثم یرقب الفجر فإذا قارب طلوعه نزل فأخبر ابن ام مکتوم الخ۔
یعنی حضرت بلال ؓ فجر سے قبل اذان دے کر اس جگہ دعاء کے لیے ٹھہرے رہتے اور فجر کا انتظار کرتے جب طلوع فجر قریب ہوتی تو وہاں سے نیچے اتر کر ابن ام مکتوم ؓ کو اطلا ع کرتے اور وہ پھر فجر کی اذان دیا کرتے تھے۔
ہر دو کی اذان کے درمیان قلیل فاصلہ کا مطلب یہی سمجھ میں آتا ہے آیت قرآنیہ ﴿حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ﴾ (البقرة: 187)
سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صبح صادق نمایاں ہوجانے تک سحری کھانے کی اجازت ہے، جو لوگ رات رہتے ہوئے سحری کھالیتے ہیں یہ سنت کے خلاف ہے۔
سنت کے مطابق سحری وہی ہے کہ اس سے فارغ ہونے اور فجر کی نماز شروع کرنے کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جتنا کہ پچاس آیات کے پڑھنے میں وقت صرف ہوتا ہے۔
طلوع فجر کے بعد سحری کھانا جائز نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1919   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1919  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ارشاد نبوی کو عنوان کے لیے منتخب کیا ہے۔
یہ الفاظ امام ترمذی نے بیان کیے ہیں کہ بلال ؓ کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روکے، البتہ وہ فجر جو اُفق میں عرض کے بل پھیل جائے وہ کھانے پینے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہے۔
(جامع الترمذي، الصوم، حدیث: 706) (2)
دراصل صبح کی دو قسمیں ہیں:
ایک صبح کاذب جو اُفق کے مشرقی کنارے پر بھیڑیے کی دم کی طرح اوپر چڑھتی ہے، اس وقت سحری کھانا جائز اور نماز فجر ادا کرنا حرام ہوتا ہے۔
اور دوسری صبح صادق جو اُفق کے مشرقی کنارے کے دائیں بائیں پھیل جاتی ہے، اس وقت سحری کھانا بند کر دیا جاتا ہے اور اس میں نماز فجر ادا کرنا جائز ہے۔
اس مضمون کو امام ابن خزیمہ ؒ نے ایک حدیث سے بیان کیا ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 210/3) (3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت بلال ؓ سحری کی اذان کہتے تھے۔
حدیث میں اس اذان کا مقصد بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ تہجد پڑھنے والے گھروں کو لوٹ جائیں اور جو سو رہے ہیں وہ بیدار ہو کر سحری کا اہتمام کریں، یعنی اس کا نام اذان تہجد نہیں بلکہ اذان سحری ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 210/3) (4)
حضرت بلال ؓ اذان دے کر اسی جگہ ٹھہرتے، دعائیں پڑھتےاور فجر ثانی کا انتظار کرتے، جب طلوع فجر قریب ہوتی تو اتر کر حضرت ابن ام مکتوم ؓ کو اطلاع کرتے تاکہ وہ اذان فجر کہیں۔
ہر دو اذان میں قلیل فاصلہ ہونے کا یہی مطلب ہے۔
اس کے علاوہ صحابۂ کرام ؓ کی سحری بہت قلیل مقدار میں ہوتی تھی۔
دونوں اذانوں کے درمیان یہ قلیل فاصلہ اس وقت صحابۂ کرام ؓ کی سحری کی نشاندہی کرتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1919   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 535  
´نابینا آدمی کی اذان کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن تھے اور وہ نابینا تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 535]
535۔ اردو حاشیہ:
نابینے شخص کا اذان دینا یا امامت کا اہل ہونے کی صورت میں امامت کرانا بالکل صحیح اور جائز ہے۔ اذان کے بارے میں ظاہر ہے کہ کوئی دوسرا ہی اس کی رہنمائی کرے گا۔ اور آج کل تو ایسی گھڑیاں بھی ایجاد ہو چکی ہیں، جن سے ایسے لوگوں کو وقت معلوم کرنے میں دقت نہیں ہوتی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 535   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 640  
´کیا دونوں مؤذن ایک ساتھ اذان دیتے تھے یا یکے بعد دیگرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بلال اذان دیں تو کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں، ان دونوں کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ اتر رہے ہوتے اور وہ چڑھ رہے ہوتے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 640]
640 ۔ اردو حاشیہ:
ایک اترتا اور دوسرا چڑھ جاتا تھا۔ اس سے قلت میں مبالغہ مقصود ہے، جیسا کہ عرف میں اس قسم کے جملے مشہور ہیں، ورنہ تو دو اذانوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی اکثر کتب میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ اذان اول کا آغاز رات کے دوسرے نصف حصے سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علماء کے ہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلا مؤذن اذان کے بعد بیٹھا ذکر و دعا کرتا رہتا تھا حتیٰ کہ فجر طلوع ہوتی اور اسے نظر آنے لگتی تو وہ نیچے اتر کر دوسرے مؤذن کو اوپر بھیج دیتا تھا۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ دوسرے مؤذن حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینے تھے، فجر نہیں دیکھ سکتے تھے، انہیں اطلاع دینا ضروری تھا۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس قول کی تردید میں فرماتے ہیں: سیاق حدیث کی واضح مخالفت کے ساتھ ساتھ یہاں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کون سی خاص دلیل ہے جس کی بنا پر انہوں نے اس معنی کی تصحیح کی ہے اور یہ مفہوم مراد لیا ہے یہاں تک کہ ان کے لیے یہ تاویل کرنا جائز ہو گئی؟ دیکھیے: [فتح الباري: 125/2]
بہرحال لگتا ہے کہ دونوں اذانوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا، اسے منٹوں ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے، گھنٹوں میں نہیں، یعنی اندازاً 20، 30 منٹ کا فاصلہ ہوتا ہو گا۔ واللہ أعلم۔
➌ روایت سے ثابت ہوا کہ دو مؤذن الگ الگ اذان کی پہچان کی سہولت کے لیے تھے نہ کہ اس لیے کہ دونوں اکٹھے اذان کہیں۔ اس کا تو کوئی فائدہ ہی نہ تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 640