سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
36. بَابُ : مَا يَسْتُرُ الْمُصَلِّي
باب: نمازی کے سترہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 940
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي وَالدَّوَابُّ تَمُرُّ بَيْنَ أَيْدِينَا، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ تَكُونُ بَيْنَ يَدَيْ أَحَدِكُمْ فَلَا يَضُرُّهُ مَنْ مَرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ".
طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے اور چوپائے ہمارے سامنے سے گزرتے تھے، اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کجاوہ کی پچھلی لکڑی کے مثل اگر کوئی چیز تمہارے آگے ہو تو جو کوئی آگے سے گزرے نمازی کو کچھ بھی نقصان نہ ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 47 (499)، سنن ابی داود/الصلاة 102 (685)، سنن الترمذی/الصلاة 133 (335)، (تحفة الأشراف: 5011)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/161، 162) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کجاوہ (پالان) کی پچھلی لکڑی کا اندازہ بقدر ایک ہاتھ کے کیا ہے، اور موٹا بقدر ایک انگلی کے کافی ہے، اور سترے کے نزدیک کھڑا ہونا نمازی کے لئے بہتر ہے، اسی طرح سترے کو دائیں یا بائیں ابرو کے مقابل کرنا چاہئے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 940 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث940
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب کوئی شخص ایسی جگہ نماز پڑھ رہا ہو۔
جہاں عام لوگوں کا اس کے آگے سے گزرنے کا اندیشہ ہو تو سترہ رکھ لینا مسنون ہے۔
(2)
سترہ کس طرح کا، یہ کتنا اونچا ہو۔
؟ اس کی حد اس حدیث سے متعین ہو جاتی ہے۔
کہ وہ کجاوے کی پچھلی لکڑی جتنا ہو۔
یہ تقریباً سوا یا ڈیڑھ فٹ ہوتی ہے۔
اس اعتبار سے سترہ کم از کم سوا یا ڈیڑھ فٹ اونچا ہونا چاہیے۔
(3)
اس میں اشارہ ہے کہ اگر نمازی کے آگے سے کوئی شخص گزرے تو نمازی کی نماز متاثر ہوگی۔
اس سے بعض علماء نے یہ مراد لیا ہے۔
کہ خشوع و خضوع میں فرق پڑتا ہے۔
جب کہ ستر ہ ہونے کی صورت میں نمازی کی توجہ محدود جگہ میں رہتی ہے۔
صحیح مسلم میں ارشاد نبوی ﷺ ہے۔
که بغیر سترے کے نماز پڑھنے والے کی نماز عورت، گدھے اور کالے کتے کے گزرنے سے ٹوٹ جاتی ہے۔ (صحیح المسلم، صلاۃ، باب قدر ما یستر المصلی، حدیث: 510)
سنن ابن ماجہ میں (حدیث: 949)
المرأۃ الحائض کے الفاظ ہیں۔
جس سے مراد بالغ عورت ہے ممکن ہے اس سے یہ مراد ہو۔
کہ عورت ایام حیض میں ہوتو اس کے گزرنے سے نماز ٹوٹتی ہے ورنہ نہیں لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح محسوس ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
(4)
شیخ احمد شاکررحمۃ اللہ علیہ (مصری)
نے سنن ابو داؤد کی حدیث (لَايَقْطَعُ الصَّلاَةَ شَئْيٌ)
(سنن ابی داؤد، الصلاۃ، باب من قال لا یقطع الصلاۃ شیئ، حدیث: 719)
”نماز کسی چیز کے گزرنے سے نہیں ٹوٹتی“کو ان تمام احادیث کا ناسخ قرار دیا ہے۔
اور مزید کہا کہ (سنن دراقطني: 367/3 وسنن الکبريٰ للبہیقي: 278/2)
کی روایت سے اس رائے کی تایئد ہوتی ہے۔
تفصیل کےلے دیکھئے: (جامع ترمذي، الصلاۃ، باب ماجاء انه لایقطع الصلاۃ الا الکلب والحمار والمرأۃ، حدیث: 338، حاشہ شيخ احمد شاکر رحمة اللہ علیه)
(4)
سترے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گزرنا چاہے تو سترے سے پرے گزر جائے سترے اور نمازی کے درمیان سے نہ گزرے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 940
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 685
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے (اونٹ کے) کجاوہ کی پچھلی لکڑی کے مثل کوئی چیز اپنے سامنے رکھ لی تو پھر تمہارے سامنے سے کسی کا گزرنا تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔“ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 685]
685۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا کہ سترہ نہ رکھنے سے نمازی کو نقصان ہوتا ہے۔ یعنی اس کے خشوع خضوع اور اجر میں کمی ہوتی ہے یا کم از کم اتباع امر کی تقصیر کا نقصان تو واضح ہے اور یہ سترہ کم از کم فٹ یا ڈیڑھ فٹ کے درمیان کوئی چیز ہونی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 685