صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
17. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يَمْنَعَنَّكُمْ مِنْ سَحُورِكُمْ أَذَانُ بِلاَلٍ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روکے۔
حدیث نمبر: 1918
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَالْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:" أَنَّ بِلَالًا كَانَ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ لَا يُؤَذِّنُ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ"، قَالَ الْقَاسِمُ: وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ أَذَانِهِمَا إِلَّا أَنْ يَرْقَى ذَا، وَيَنْزِلَ ذَا.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اور (عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہی روایت) قاسم بن محمد سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ بلال رضی اللہ عنہ کچھ رات رہے سے اذان دے دیا کرتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان نہ دیں تم کھاتے پیتے رہو کیونکہ وہ صبح صادق کے طلوع سے پہلے اذان نہیں دیتے۔ قاسم نے بیان کیا کہ دونوں (بلال اور ام مکتوم رضی اللہ عنہما) کی اذان کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک چڑھتے تو دوسرے اترتے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1918 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1918
حدیث حاشیہ:
علامہ قسطلانی ؒ نے نقل کیا ہے کہ صحابہ ؓ کی سحری بہت قلیل ہوتی تھی، ایک آدھ کھجور یا ایک آدھ لقمہ، اس لیے یہ قلیل فاصلہ بتلایا گیا۔
حدیث ہذا میں صاف مذکور ہے کہ بلال ؓ صبح صادق سے پہلے اذان دیا کرتے تھے یہ ان کی سحری کی اذان ہوتی تھی اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ فجر کی اذان اس وقت دیتے جب لوگ ان سے کہتے کہ فجر ہو گئی ہے کیوں کہ وہ خود نابینا تھے۔
علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں:
و المعنی في الجمیع أن بلالا کان یؤذن قبل الفجر ثم یتربص بعد للدعاء و نحوہ ثم یرقب الفجر فإذا قارب طلوعه نزل فأخبر ابن ام مکتوم الخ۔
یعنی حضرت بلال ؓ فجر سے قبل اذان دے کر اس جگہ دعاء کے لیے ٹھہرے رہتے اور فجر کا انتظار کرتے جب طلوع فجر قریب ہوتی تو وہاں سے نیچے اتر کر ابن ام مکتوم ؓ کو اطلا ع کرتے اور وہ پھر فجر کی اذان دیا کرتے تھے۔
ہر دو کی اذان کے درمیان قلیل فاصلہ کا مطلب یہی سمجھ میں آتا ہے آیت قرآنیہ ﴿حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ﴾ (البقرة: 187)
سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صبح صادق نمایاں ہوجانے تک سحری کھانے کی اجازت ہے، جو لوگ رات رہتے ہوئے سحری کھالیتے ہیں یہ سنت کے خلاف ہے۔
سنت کے مطابق سحری وہی ہے کہ اس سے فارغ ہونے اور فجر کی نماز شروع کرنے کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جتنا کہ پچاس آیات کے پڑھنے میں وقت صرف ہوتا ہے۔
طلوع فجر کے بعد سحری کھانا جائز نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1918
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1918
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ارشاد نبوی کو عنوان کے لیے منتخب کیا ہے۔
یہ الفاظ امام ترمذی نے بیان کیے ہیں کہ بلال ؓ کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روکے، البتہ وہ فجر جو اُفق میں عرض کے بل پھیل جائے وہ کھانے پینے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہے۔
(جامع الترمذي، الصوم، حدیث: 706) (2)
دراصل صبح کی دو قسمیں ہیں:
ایک صبح کاذب جو اُفق کے مشرقی کنارے پر بھیڑیے کی دم کی طرح اوپر چڑھتی ہے، اس وقت سحری کھانا جائز اور نماز فجر ادا کرنا حرام ہوتا ہے۔
اور دوسری صبح صادق جو اُفق کے مشرقی کنارے کے دائیں بائیں پھیل جاتی ہے، اس وقت سحری کھانا بند کر دیا جاتا ہے اور اس میں نماز فجر ادا کرنا جائز ہے۔
اس مضمون کو امام ابن خزیمہ ؒ نے ایک حدیث سے بیان کیا ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 210/3) (3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت بلال ؓ سحری کی اذان کہتے تھے۔
حدیث میں اس اذان کا مقصد بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ تہجد پڑھنے والے گھروں کو لوٹ جائیں اور جو سو رہے ہیں وہ بیدار ہو کر سحری کا اہتمام کریں، یعنی اس کا نام اذان تہجد نہیں بلکہ اذان سحری ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 210/3) (4)
حضرت بلال ؓ اذان دے کر اسی جگہ ٹھہرتے، دعائیں پڑھتےاور فجر ثانی کا انتظار کرتے، جب طلوع فجر قریب ہوتی تو اتر کر حضرت ابن ام مکتوم ؓ کو اطلاع کرتے تاکہ وہ اذان فجر کہیں۔
ہر دو اذان میں قلیل فاصلہ ہونے کا یہی مطلب ہے۔
اس کے علاوہ صحابۂ کرام ؓ کی سحری بہت قلیل مقدار میں ہوتی تھی۔
دونوں اذانوں کے درمیان یہ قلیل فاصلہ اس وقت صحابۂ کرام ؓ کی سحری کی نشاندہی کرتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1918