سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
29. بَابُ : مَنْ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً
باب: ایک سلام پھیرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 920
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى سَلَمَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى، فَسَلَّمَ مَرَّةً وَاحِدَةً".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے نماز پڑھی تو ایک مرتبہ سلام پھیرا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4553، ومصباح الزجاجة: 337) (صحیح)» (یہ حدیث پہلی والی حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں یحییٰ بن راشد ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،لضعف يحيي بن راشد“ يعني المازني البراء: ضعيف (تقريب: 7545)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 411
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 920 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث920
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ باب میں تینوں روایات ہمارے فاضل محقق کے نزدیک سنداً ضعیف ہیں۔
جبکہ مسئلہ فی نفسہ درست ہے۔
کیونکہ یہ دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے۔
دیکھئے: (مسند احمد، 236/6 وسنن ابی داؤد، التطوع، باب فی صلاۃ اللیل، حدیث: 1345)
غالباً اسی وجہ سے دیگر محققین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (صحیح ابن ماجه حدیث: 920، 919، 918)
(2)
سامنے کی طرف سلام کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح دونوں طرف سلام پھیرتے وقت چہرہ پوری طرح پھیرا جاتاہے۔
اس طرح نہیں پھیرا بلکہ تھوڑا سا دایئں منہ پھیرا، جیسے حدیث: 914 کے فوائد میں ذکر ہوا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 920