سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
19. بَابُ : السُّجُودِ
باب: نماز میں سجدے کا بیان۔
حدیث نمبر: 882
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، قَالَ:" رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے، اور جب سجدہ سے اٹھتے تو اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 141 (838)، سنن الترمذی/الصلاة 85 (268)، سنن النسائی/التطبیق 38 (1090)، (تحفة الأشراف: 11780)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/381)، سنن الدارمی/الصلاة 74 (1359) (ضعیف)» (سند میں شریک القاضی ضعیف ہیں، نیز: ملاحظہ ہو: الإرواء: 357، وضعیف أبی داود: 151)
وضاحت: ۱؎: امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو عاصم سے شریک کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے، اور شریک تفرد کی صورت میں قوی نہیں ہیں، علامہ البانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے متن کو عاصم بن کلیب سے ثقات کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز کو شریک کی نسبت زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اس کے باوجود ان ثقہ راویوں نے سجدہ میں جانے اور اٹھنے کی کیفیت کا ذکر نہیں کیا ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس حدیث میں شریک کو وہم ہوا ہے، اور یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے جو قطعاً قابل استدلال نہیں، اور صحیح حدیث ابوداود میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں ہے کہ دونوں ہاتھ کو دونوں گھٹنوں سے پہلے رکھے، علامہ ابن القیم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو «مقلوب» کہا ہے کہ اصل حدیث یوں ہے: «وليضع ركبتيه قبل يديه» یعنی نمازی دونوں ہاتھوں سے پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھے، لیکن محدث عبدالرحمن مبارکپوری، علامہ احمد شاکر، شیخ ناصر الدین البانی نے ابن القیم کے اس رائے کی تردید کی ہے، اور ابن خزیمہ نے کہا ہے کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھنے والی روایت کو منسوخ کہنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی یہ روایت: «كنا نضع اليدين قبل الركبتين فأمرنا بالركبتين قبل اليدين» یعنی: ”پہلے ہم گھٹنوں سے قبل ہاتھ رکھتے تھے، پھر ہمیں ہاتھوں سے قبل گھٹنے رکھنے کا حکم دیا گیا“ انتہائی ضعیف ہے، اور قطعاً قابل استدلال نہیں۔ مسئلے کی مزید تنقیح اور کے لیے ہم یہاں پر اہل علم کے اقوال نقل کرتے ہیں: اہل حدیث کا مذہب ہے کہ سجدے میں جانے کے لیے گھٹنے سے پہلے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا جائے گا، یہی صحیح ہے اس لیے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اور حکم دونوں سے ثابت ہے، رہا فعل تو ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو گھٹنے سے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر رکھتے اس حدیث کی تخریج ایک جماعت نے کی ہے جن میں حاکم بھی ہیں، حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، اور جیسا کہ ان دونوں نے کہا ایسا ہی ہے، اس کی تصحیح ابن خزیمہ (۶۲۷) نے بھی کی ہے (ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل ۲/۷۷-۷۸)، رہ گیا امر نبوی تو وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث سے ثابت ہے: «إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير و ليضع يديه قبل ركبتيه» یعنی: ”جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کے بیٹھنے کی طرح زمین پر نہ بیٹھے، گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھے“، اس حدیث کی تخریج ابوداود، نسائی اور جماعت نے کی ہے، اور اس کی سند نووی اور زرقانی کے بقول جید ہے، اور یہی حافظ ابن حجر کا قول ہے، اور ان دونوں حدیثوں کے معارض صرف وائل بن حجر کی حدیث ہے، اور یہ راوی حدیث شریک بن عبداللہ القاضی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس لیے کہ وہ سیٔ الحفظ (کمزور حافظہ کے) ہیں، تو جب وہ تفرد کی حالت میں ناقابل حجت ہیں تو جب ثقات کی مخالفت کریں گے تو کیا حال ہو گا، اسی لیے حافظ ابن حجر بلوغ المرام میں فرماتے ہیں کہ ابوہریرہ کی حدیث وائل کی حدیث سے زیادہ قوی ہے، اور اس کو عبدالحق اشبیلی نے ذکر کیا ہے۔ طحاوی شرح معانی الآثار (۱/۱۵۰) میں فرماتے ہیں کہ اونٹ کے گھٹنے اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، ایسی ہی دوسرے چوپایوں کے اور انسان کا معاملہ ایسے نہیں تو ارشاد نبوی ہوا کہ نمازی اپنے گھٹنوں پر نہ بیٹھے جو کہ اس کے پاؤں میں ہوتے ہیں، جیسا کہ اونٹ اپنے گھٹنوں پر (جو اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں) بیٹھتا ہے، لیکن بیٹھنے کی ابتداء ایسے کرے کہ پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھے جس میں اس کے گھٹنے نہیں ہیں پھر اپنے گھٹنوں کو رکھے تو اپنے اس فعل میں وہ اونٹ کے بیٹھنے کے خلاف کرے گا، البانی صاحب کہتے ہیں کہ اس سنت میں وارد حکم بظاہر واجب ہے، ابن حزم نے محلی میں اس کو واجب کہا ہے (۴/۱۲۸)، واجب کہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کے الٹا ناجائز ہے، اور اس میں اس اتفاق کی تردید ہے جس کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فتاویٰ میں نقل کیا ہے کہ دونوں طرح جائز ہے، (فتاوی ابن تیمیہ ۱/۸۸)، البانی صاحب کہتے ہیں کہ اس متروک سنت پر تنبیہ ہونی چاہئے تاکہ اس پر عمل کرنے کا اہتمام ہو، اور یہی چیز ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی دس صحابہ رسول کے ساتھ حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زمین کی طرف جاتے تھے اور آپ کے دونوں ہاتھ پہلو سے دور ہوتے تھے پھر سجدہ کرتے تھے، اور سبھی نے ابوحمید سے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی نماز پڑھتے تھے، اس کی روایت ابن خزیمہ (صحیح ابن خزیمہ ۱/۳۱۷-۳۱۸) وغیرہ نے صحیح سند سے کی ہے۔ جب آپ کو یہ معلوم ہو گیا اور آپ نے میرے ساتھ لفظ «هوى» کے معنی پر غور کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ پہلو سے دونوں ہاتھ کو الگ کرتے ہوئے زمین پر جانا تو آپ پر بغیر کسی غموض کے یہ واضح ہو جائے گا کہ ایسا عادۃً اسی وقت ممکن ہے جب کہ دونوں ہاتھ کو آدمی زمین پر لے جائے نہ کہ گھٹنوں کو اور اس میں وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ضعف پر ایک دوسری دلیل ہے، اور یہی مالک، اوزاعی، ابن حزم اور ایک روایت میں احمد کا ہے، (ملاحظہ ہو:الاختیارات الفقہیہ للإمام الالبانی، ۹۰-۹۱) البانی صاحب ”صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم “ میں دونوں ہاتھوں کو زمین پر سجدہ کے لیے آگے کرنے کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے وقت اپنے دونوں ہاتھ زمین پر گھٹنوں سے پہلے رکھتے تھے، اور اس کے کرنے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے، بلکہ اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے۔ پہلی حدیث کی تخریج میں فرماتے ہیں کہ اس کی تخریج ابن خزیمہ، دارقطنی اور حاکم نے کی ہے، اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، اور اس کے خلاف وارد حدیث صحیح نہیں ہے، اس کے قائل مالک ہیں، اور احمد سے اسی طرح مروی ہے کمافی التحقیق لابن الجوزی، اور مروزی نے مسائل میں امام اوزاعی سے صحیح سند سے یہ روایت کی ہے کہ میں نے لوگوں کو اپنے ہاتھ زمین پر گھٹنوں سے پہلے رکھتے پایا ہے۔ اور دوسری حدیث جس میں دونوں ہاتھوں کو پہلے زمین پر رکھنے کا حکم ہے، اس کی تخریج میں لکھتے ہیں: ابوداود، تمام فی الفوائد، سنن النسائی صغریٰ و کبریٰ صحیح سند کے ساتھ، عبدالحق نے احکام کبریٰ میں اس کی تصحیح کی ہے اور کتاب التہجد میں کہا کہ یہ اس سے پہلی یعنی اس کی مخالف وائل والی حدیث کی سند سے زیادہ بہتر ہے، بلکہ وائل کی حدیث اس صحیح حدیث اور اس سے پہلے کی حدیث کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ سند کے اعتبار سے بھی ضعیف ہے، اور اس معنی کی جو حدیثیں ہیں، وہ بھی ضعیف ہیں جیسا کہ میں نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ (۹۲۹) اور ارواء الغلیل (۳۵۷) میں اس کی کی ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں کہ جان لیں کہ اونٹ کی مخالفت کی صورت یہ ہے کہ سجدے میں جاتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر گھٹنوں سے پہلے رکھا جائے، کیونکہ سب سے پہلے اونٹ بیٹھتے وقت اپنے گھٹنے کو جو اس کے ہاتھوں (یعنی اس کے دونوں پیر) میں ہوتے ہیں، زمین پر رکھتا ہے، جیسا کہ لسان العرب وغیرہ میں آیا ہے، اور امام طحاوی نے ”مشکل الآثار“ اور ”شرح معانی الآثار“ میں ایسے ہی ذکر کیا ہے، اور ایسے ہی امام قاسم سرقسطی رحمہ اللہ کا قول ہے، چنانچہ انہوں نے ”غریب الحدیث“ میں صحیح سند کے ساتھ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ کوئی شخص نماز میں اڑیل اونٹ کی طرح قطعاً نہ بیٹھے، (امام سرقسطی کہتے ہیں کہ یہ سجدہ میں جانے کی صورت میں ہے) یعنی وہ اپنے آپ کو زمین پر اس طرح نہ پھینکے جس طرح اڑیل اونٹ بے اطمینانی سے بیٹھتا ہے، بلکہ اطمینان کے ساتھ نیچے جائے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھے، پھر اس کے بعد اپنے گھٹنوں کو، اس سلسلے میں ایک مرفوع حدیث مروی ہے جس میں یہ تفصیل موجود ہے، پھر قاسم سرقسطی نے اوپر والی حدیث ذکر کی، ابن القیم کا یہ کہنا عجیب ہے کہ یہ بات عقل سے دور ہے، اور اہل زبان کے یہاں غیر معروف بھی ہے۔ ہم نے جن مراجع کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بہت سارے مراجع میں ان کی تردید ہے، جس کی طرف رجوع کیا جانا چاہئے، ہم نے اس مسئلہ کو شیخ حمود تویجری پر اپنے رد میں تفصیل سے بیان کیا ہے (ملاحظہ ہو: صفۃ الصلاۃ، ۱۴۰-۱۴۱)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (838) ترمذي (268) نسائي (1090)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 409
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 882 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث882
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
اس لئے سجدہ میں جاتے وقت پہلے گھٹنے نہیں بلکہ ہاتھ زمین پر رکھنے چاہییں۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔
”جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو ایسے نہ بیٹھے جیسے کہ اونٹ بیٹھتا ہے۔
چاہیے کہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے۔“ (سنن ابی داؤد، الصلاة، باب کیف یضع رکبتیه قبل یدیه، حدیث: 840)
نیز صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، باب: 128)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کی سند جید ہے۔
جیسا کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور زرقانی نے لکھا ہے۔
اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو حدیث وائل کی نسبت قوی تر لکھا ہے۔
دیکھئے: (تمام المنة: 194، 193)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی ترجیح بھی یہی ہے کہ سجدے میں جاتے ہوئے اونٹ کی مشابہت سے بچتے ہوئے ہاتھ زمین پر رکھنے چاہییں۔
عام محدثین اور حنابلہ اسی کے قائل ہیں۔
مگر احناف اور شوافع حضرت وائل رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی (ضعیف)
روایت پر عامل ہیں۔
اور پہلے گھٹنے رکھتے ہیں۔
تفصیل کےلئے دیکھئے:(تحفة الأحوذي تمام المنة)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 882
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
ابوسعيد سلفي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 838
´آدمی زمین پر ہاتھوں سے پہلے گھٹنے کس طرح رکھے؟`
«. . . عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ . . .»
”. . . وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے اور جب اٹھتے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے . . .“ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /باب كَيْفَ يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ: 838]
تخریج الحدیث:
[سنن ابي داؤد: 838، سنن النسائي: 1090، سنن الترمذي: 268، و صححهٔ، سنن ابن ماجه: 882، و صححه ابن خزيمة: 629، و ابن حبان: 1909]
تبصرہ:
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس میں شریک بن عبداللہ قاضی ”مدلس“ راوی ہیں،
انہوں نے اپنے شیخ سے سماع کی صراحت نہیں کی۔
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [السنن الكبرى: 100/2]
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 70
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1155
´زمین سے ہاتھ کو گھٹنوں سے پہلے اٹھانے کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے تو گھٹنوں کو ہاتھ سے پہلے زمین پر رکھتے، اور جب اٹھتے تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اسے شریک سے یزید بن ہارون کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے، واللہ تعالیٰ اعلم۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1155]
1155۔ اردو حاشیہ:
➊ یاں شریک سے قاضی شریک مراد ہیں۔ اس روایت کو اس طرح بیان کرنے میں وہ متفرد ہیں۔ ثقہ راوی (مثلا: ہمام) اس روایت کو مرسل، یعنی صحابی کے بغیر براہ راست نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔ قاضی شریک حافظے کے لحاظ سے اتنے قوی نہیں کہ ان کی منفرد روایت کو قبول کیا جا سکے۔ امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے، متصل نہیں، معتبر نہیں۔ دوسرے محدثین، مثلاً: امام ترمذی، دارقطنی اور بیہقی رحمہم اللہ بھی اس فیصلے میں امام صاحب کے ساتھ ہیں۔
➋ اس حدیث کی دیگر اسناد میں حضرت وائل صحابی کا ذکر نہیں ہے۔ ان کا ذکر کرنے والے راوی متکلم فیہ ہیں، لہٰذا یہ روایت متنازع فیہ ہے۔ حدیث نمبر: 1154 معتبر ہے۔ اس مسئلے پر مزید بحث اس سے قبل فوائد حدیث نمبر: 1092 میں ہو چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1155
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 268
´سجدے میں دونوں ہاتھ سے پہلے دونوں گھٹنے رکھنے کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا: جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے دونوں گھٹنے اپنے دونوں ہاتھ سے پہلے رکھتے، اور جب اٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 268]
اردو حاشہ:
1؎:
جو لوگ دونوں ہاتھوں سے پہلے دونوں گھٹنوں کے رکھنے کے قائل ہیں انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے،
شریک عاصم بن کلیب سے روایت کرنے میں منفرد ہیں جب کہ شریک خود ضعیف ہیں،
اگرچہ اس روایت کو ہمام بن یحیی نے بھی دو طریق سے ایک محمد بن حجادہ کے طریق سے اور دوسرے شقیق کے طریق سے روایت کی ہے لیکن محمد بن حجادہ والی سند منقطع ہے کیونکہ عبد الجبار کا سماع اپنے باپ سے نہیں ہے اور شقیق کی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ وہ خود مجہول ہیں۔
وضاحت
2؎:
ہمام نے اسے عاصم سے نہیں بلکہ شقیق سے روایت کیا ہے اور شقیق نے عاصم سے مرسلاً روایت کیا ہے گویا شقیق والی سند میں دوعیب ہیں:
ایک شقیق خود مجہول ہیں اور دوسرا عیب یہ ہے کہ یہ مرسل ہے اس میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں۔
نوٹ:
(شریک جب متفرد ہوں تو ان کی روایت مقبول نہیں ہوتی)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 268
ابوطلحہ حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود838
فوائد ومسائل:
اہل علم کی سجدے کے لئے جانے کے انداز میں مختلف آراء ہیں، یعنی: کہ پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں یا پہلے گھٹنے رکھے جائیں، چنانچہ اس بارے میں ابو حنیفہ، شافعی، اور احمد (رحمہم اللہ) کی ایک روایت کے مطابق نمازی اپنے ہاتھ زمین پر رکھنے سے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے، بلکہ ترمذی رحمہ اللہ نے اس عمل کو اکثر اہل علم کی طرف منسوب کیا ہے، چنانچہ امام ترمذی اپنی سنن ترمذی: (2/57) میں کہتے ہیں:
"اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور ان کا خیال ہے کہ اپنے ہاتھوں سے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے، اور جس وقت اٹھے تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھائے، اس موقف کے قائلین نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کو دلیل بنایا ہے، آپ کہتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ سجدہ کرتے تھے اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے، اور جب کھڑے ہوتے تھے اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے" اس روایت کو ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
اور دارقطنی (1/345)اس کے بارے میں کہتے ہیں:
"یہ حدیث شریک سے صرف یزید بن ہارون نے ہی بیان کی ہے، پھر عاصم بن کلیب سے شریک کے علاوہ کوئی اور بیان نہیں کرتا، جبکہ خود شریک قوی راوی نہیں ہے"
بیہقی رحمہ اللہ سنن (2/101)میں کہتے ہیں:
"اس حدیث کی سند ضعیف ہے"
البانی رحمہ اللہ نے اسے مشکاۃ (898) میں، اور ارواء الغلیل: (2/75) میں ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ دیگر اہل علم جن میں ابن قیم رحمہ اللہ بھی شامل ہیں وہ اپنی کتاب: "زاد المعاد" میں اس حدیث کو صحیح کہتے ہیں۔
اسی طرح جن علمائے کرام نے ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھنے کا موقف اپنایا ہے، ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ، اور ان کے شاگرد رشید ابن قیم، اور موجودہ علمائے کرام میں سے شیخ عبد العزیز بن باز، اور شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہم اللہ جمیعا ہیں۔
جبکہ مالک، اوزاعی، اور محدثین اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھوں کو قدموں سے پہلے زمین پر رکھنا شرعی عمل ہے، اس کے لئے انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو دلیل بنایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو (سجدہ کیلئے) ایسے مت (جھکے جیسے) اونٹ بیٹھتا ہے، بلکہ اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے)
اس حدیث کو احمد: (2/381)، ابو داود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
نووی رحمہ اللہ "المجموع" (3/421) میں کہتے ہیں:
"اس حدیث کو ابو داود اور نسائی نے جید سند کیساتھ روایت کیا ہے"
اس حدیث کے بارے میں البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ سند صحیح ہے، اس سند کے تمام راوی ثقات راوی ہیں اور صحیح مسلم کے ہیں ماسوائے محمد بن عبد اللہ بن حسن کے یہ راوی "نفس الزکیہ" کے لقب سے مشہور ہے، لیکن یہ بھی ثقہ ہیں "
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلے کے بارے میں اپنے فتاوی: (22/449) میں لکھا ہے:
"ہر دوصورت میں نماز جائز ہے، اس پر علمائے کرام کا اتفاق ہے، چنانچہ نمازی اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھے یا گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھے، ہر دو صورت میں تمام علمائے کرام کے نزدیک متفقہ طور پر نماز صحیح ہے، اختلاف صرف افضل میں ہے" انتہی
لہذا متلاشیان علم کو اسی طریقے پر عمل کرنا چاہیے جو اسے اپنی علمی تحقیق سے پر اطمینان محسوس ہو، اور عامی آدمی ایسے شخص کی بات مانے جس پر اُسے اعتماد ہو۔
واللہ اعلم.
ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد
اسلام کیو اے، حدیث/صفحہ نمبر: 2108