سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
10. بَابُ : الْقِرَاءَةِ فِي صَلاَةِ الْعِشَاءِ
باب: عشاء میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 836
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ صَلَّى بِأَصْحَابِهِ الْعِشَاءَ فَطَوَّلَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ ب: الشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى و اللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور نماز لمبی کر دی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”یہ سورتیں پڑھا کرو: «والشمس وضحاها»، «سبح اسم ربك الأعلى»، «والليل إذا يغشى» اور «اقرأ بسم ربك» “ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 36 (465)، سنن النسائی/الإمامة 39 (832)، 41 (836)، الافتتاح 63 (985)، 70 (998)، (تحفة الأشراف: 2912)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 60 (701)، 63 (705)، الأدب 74 (6106)، سنن ابی داود/الصلاة 68 (600)، 127 (790)، مسند احمد (3/299، 308، 369) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عشاء میں یہ سورتیں اور ان کے ہم مثل سورتیں پڑھنی چاہئے، جیسے سورۃ «بروج»، سورۃ «انشقاق»، سورۃ «طارق»، سورۃ «غاشیہ»، سورۃ «فجر» اور سورۃ «لم یکن» یہ سورتیں حدیث میں مذکور سورتوں کے قریب قریب ہیں، عشاء میں ایسی ہی سورتیں پڑھنا سنت ہے تاکہ مقتدیوں پر بوجھ نہ ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 836 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث836
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشاء کی نماز نبی اکرمﷺ کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد اپنے محلے کی مسجد میں جا کر نماز کی امامت کیا کرتے تھے۔
ایسی صورت میں جب کہ ان کی نماز مسجد نبوی ﷺ کی نماز سے بھی لیٹ ادا ہوتی تھی۔
طویل قراءت لوگوں کےلئے مزید مشقت اور گرانی کا باعث ہوتی حتیٰ کہ بعض لوگوں نے آ کر نبی ﷺ سے ان کی شکایت بھی کی۔
جس پر آپﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب القراءۃ فی العشاء، حدیث: 465)
(2)
اس موقع پر شکایت کرنے والے صاحب کو ایک اور وجہ سے بھی مشقت ہوئی۔
وہ محنت مشقت سے روزی کمانے والے آدمی تھے۔
مزدوری سے فارغ ہوکر آئے۔
دو اونٹ ساتھ تھے۔
دیکھا مسجد میں جماعت کھڑی ہے۔
تو نماز میں شامل ہوگئے۔
کچھ دن بھر کی تھکاوٹ کچھ اونٹوں کا فکر کچھ جلدی گھر پہنچ کرکھانے پینے اور آرام کی خواہش۔
ادھر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ بقرہ شروع کردی۔
اب معلوم نہیں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت سے لطف وانداز ہوتے ہوئے کہاں تک پڑھتے چلے جایئں۔
چنانچہ اس صحابی نے جماعت سے الگ ہوکر اپنی نماز پڑھی اور چلے گئے۔
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے نامناسب خیال کیا۔
اور تنقید کے طور پرکچھ ارشاد فرمایا۔
انھیں خبر ملی تو رسول اللہ ﷺ سے جا شکایت کی۔
تب آپﷺ نے یہ بات فرمائی۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، الأذان، باب من شکا إمامه اذا طوّل، حدیث: 705)
(3)
امام کو نماز میں کمزور اور ضرورت مند مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
(4)
اگرکسی سے شکایت ہوتو اس کے متعلق کسی اعلیٰ شخصیت کو بتانا غیبت میں شامل نہیں۔
کیونکہ اس سے غلطی کی تلافی اور اس کی اصلاح مقصود ہے۔
(5)
عشاء کی نماز میں قراءت مختصر ہونی چاہیے۔
اس میں مذکورہ بالاسورتیں یا اس مقدار میں تلاوت کرنا مسنون ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 836
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 790
´نماز ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر لوٹتے تو ہماری امامت کرتے تھے - ایک روایت میں ہے: پھر وہ لوٹتے تو اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز دیر سے پڑھائی اور ایک روایت میں ہے: عشاء دیر سے پڑھائی، چنانچہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر گھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کی اور سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی تو ان کی قوم میں سے ایک شخص نے جماعت سے الگ ہو کر اکیلے نماز پڑھ لی، لوگ کہنے لگے: اے فلاں! تم نے منافقت کی ہے؟ اس نے کہا: میں نے منافقت نہیں کی ہے، پھر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر یہاں سے واپس جا کر ہماری امامت کرتے ہیں، ہم لوگ دن بھر اونٹوں سے کھیتوں کی سینچائی کرنے والے لوگ ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں (اس لیے تھکے ماندے رہتے ہیں) معاذ نے آ کر ہماری امامت کی اور سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے؟ فلاں اور فلاں سورۃ پڑھا کرو۔“ ابوزبیر نے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): ”تم «سبح اسم ربك الأعلى»، «والليل إذا يغشى» پڑھا کرو“، ہم نے عمرو بن دینار سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میرا بھی خیال ہے کہ آپ نے اسی کا ذکر کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 790]
790۔ اردو حاشیہ:
➊ امام کو اپنے مقتدیوں کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز مختصر پڑھانی چاہیے۔
➋ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نماز اور جماعت سے پیچھے رہنے کو نفاق سے تعبیر کیا کرتے تھے۔
➌ امام، مفتی اور داعی کو کسی عمل خیر میں اس نکتے کو نہیں بھولنا چاہیے کہ عام مسلمانوں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ ایسی صورت نہ ہو کہ لوگ دین ہی سے بدک جائیں۔ مردہ سنتوں کے احیاء کے لئے ضروری ہے کہ پہلے لوگوں کی فکری تربیت کی جائے اور ان میں سنت کی محبت بھر دی جائے اور دلائل محکمہ سے انہیں مطمئین کیا جائے۔ پھر عمل شروع کیا جائے۔ بعض اوقات ایک شخص کا ارادہ تو نیکی کا ہوتا ہے، مگر اس سے فتنہ پیدا ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی عافیت میں رکھے۔ آئمہ اور داعی حضرات کی ذمہ دای انتہائی اہم اور حساس ہے۔
➍ پیچھے یہ گزر چکا ہے کے کسی بھی مشروع سبب سے نماز کو دہرانا اور نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض ادا کرنا جائز ہے۔ دیکھیے: [حديث 599]
کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جو اپنی قوم کو پڑھایا کرتے تھے، وہ ان کی نفل نماز ہوتی تھی۔
ملحوظہ۔ اس روایت میں صرف مسافر کا ذکر صحیح نہیں ہے۔ [شيخ الباني]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 790
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 832
´مقتدی کا امام کی نماز سے نکل جانے اور جا کر مسجد کے ایک گوشے میں اپنی نماز پڑھ لینے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کا ایک شخص آیا اور نماز کھڑی ہو چکی تھی تو وہ مسجد میں داخل ہوا، اور جا کر معاذ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنے لگا، انہوں نے رکعت لمبی کر دی، تو وہ شخص (نماز توڑ کر) الگ ہو گیا، اور مسجد کے ایک گوشے میں جا کر (تنہا) نماز پڑھ لی، پھر چلا گیا، جب معاذ رضی اللہ عنہ نے نماز پوری کر لی تو ان سے کہا گیا کہ فلاں شخص نے ایسا ایسا کیا ہے، تو معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں نے صبح کر لی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور بیان کروں گا ؛ چنانچہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلا بھیجا، وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کس چیز نے ایسا کرنے پر ابھارا؟“ تو اس نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں نے دن بھر (کھیت کی) سینچائی کی تھی، میں آیا، تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی، تو میں مسجد میں داخل ہوا، اور ان کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا، انہوں نے فلاں فلاں سورت پڑھنی شروع کر دی، اور (قرآت) لمبی کر دی، تو میں نے نماز توڑ کر جا کر الگ ایک کونے میں نماز پڑھ لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 832]
832 ۔ اردو حاشیہ:
➊ امام نسائی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اب بھی اگر کوئی معقول وجہ بن جائے تو آدمی نماز باجماعت سے نکل کر اپنی الگ نماز پڑھ سکتا ہے مثلاً: جماعت کھڑی ہے کہ ٹرین آگئی۔ امام صاحب لمبی قرأت کر رہے ہیں تو ٹرین کا مسافر اپنی نماز الگ سے پڑھ لے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی خیال ہے۔ اس قسم کی کوئی اور معقول وجہ بھی عذر بن سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ یہ عشاء کی نماز کا واقعہ ہے۔ اس انصاری کو ادائیگی نماز کی داد دیجیے کہ سارا دن کام کرنے بلکہ رات کا ایک حصہ بھی گزر جانے کے باوجود اس نے کھانے اور آرام کرنے کی بجائے نماز کو ترجیح دی۔
➌ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو تنبیہ کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم «وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَالضُّحَى، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَي» اور «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأعْلَى» جیسی سورتیں پڑھا کرو۔ دیکھیے: [صحیح البخاري الأذان حدیث: 705 و صحیح مسلم الصلاة حدیث: 465]
➍ عصر اور مغرب کی نماز میں قرآن مجید کی آخری چھوٹی سورتیں ظہر اور عشاء میں آخری درمیانی سورتیں اور صبح کی نماز میں آخری بڑی سورتیں مسنون ہیں۔ ویسے مقتدیوں کے لحاظ سے کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 832
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 836
´امام اور مقتدی کی نیت کے اختلاف کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر اپنی قوم میں واپس جا کر ان کی امامت کرتے، ایک رات انہوں نے نماز لمبی کر دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہوں نے نماز پڑھی، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آ کر ان کی امامت کرنے لگے، تو انہوں نے سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی، جب مقتدیوں میں سے ایک شخص نے قرآت سنی تو نماز توڑ کر پیچھے جا کر الگ سے نماز پڑھ لی، پھر وہ (مسجد سے) نکل گیا، تو لوگوں نے پوچھا، فلاں! تو منافق ہو گیا ہے؟ تو اس نے کہا: اللہ کی قسم میں نے منافقت نہیں کی ہے، اور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا، اور آپ کو اس سے باخبر کروں گا ؛ چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، پھر ہمارے پاس آتے ہیں، اور ہماری امامت کرتے ہیں، پچھلی رات انہوں نے نماز بڑی لمبی کر دی، انہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر واپس آ کر انہوں نے ہماری امامت کی، تو سورۃ البقرہ پڑھنا شروع کر دی، جب میں نے ان کی قرآت سنی تو پیچھے جا کر میں نے (تنہا) نماز پڑھ لی، ہم پانی ڈھونے والے لوگ ہیں، دن بھر اپنے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو تم (نماز میں) فلاں، فلاں سورت پڑھا کرو“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 836]
836 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھتے اور وہی نماز جاکر اپنی قوم کو پڑھاتے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے اور اپنی قوم کو عشاء کی نماز پڑھاتے تھے البتہ جس دن یہ واقعہ ہوا اس دن انہوں نے بالاتفاق عشاء کی نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی تھی۔
➋ ظاہر ہے آپ کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز فرض ہوتی تھی اور جو اپنی قوم کو پڑھاتے تھے وہ ان (معاذ رضی اللہ عنہ) کے لیے نفل ہوتی تھی اور مقتدیوں کے لیے فرض۔ اور یہی امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال ہے کہ امام نفل کی نیت سے پڑھ رہا ہو اور مقتدی فرض کی نیت سے تو کوئی حرج نہیں۔ محدثین اسے جائز سمجھتے ہیں مگر احناف کے نزدیک نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض نہیں پڑھے جاسکتے۔ اس حدیث کو وہ منسوخ سمجھتے ہیں مگر نسخ ثابت نہیں لہٰذا حدیث میں مذکورہ صورت جائز ہے یعنی امام نماز پہلے پڑھ چکا ہو وہ نفل نماز کی نیت کے ساتھ ہو جب کہ مقتدیوں کی نیت فرض کی ہو تو یہ صورت بالکل صحیح ہے اور حدیث معاذ اس کی واضح دلیل ہے۔ واللہ آعلم۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھیے حدیث نمبر: 832۔
➌ امام اور مقتدی کے اختلاف نیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امام مثلاً: عصر کی نماز پڑھا رہا ہو تو کوئی شخص اس کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھ سکتا ہے جس کی نماز ظہر رہ گئی ہو اور نماز عصر وہ بعد میں اکیلا پڑھ لے۔ اور جن کے نزدیک ترتیب کے بغیر بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے ان کے نزدیک مذکورہ صورت میں یہ بھی جائز ہے کہ وہ امام کے ساتھ نماز عصر ہی ادا کرے اور سلام پھیرنے کے بعد وہ ظہر کی قضا پڑھ لے۔ دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔ واللہ آعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 836
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 985
´مغرب میں «سبح اسم ربک الاعلی» پڑھنے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انصار کا ایک شخص دو اونٹوں کے ساتھ جن پر سنچائی کے لیے پانی ڈھویا جاتا ہے معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا، اور وہ مغرب ۱؎ پڑھ رہے تھے، تو انہوں نے سورۃ البقرہ شروع کر دی، تو اس شخص نے (الگ جا کر) نماز پڑھی، پھر وہ چلا گیا تو یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاذ! کیا تم فتنہ پرداز ہو؟ معاذ کیا تم فتنہ پرداز ہو؟“ «سبح اسم ربك الأعلى» اور «والشمس وضحاها» اور اس طرح کی سورتیں کیوں نہیں پڑھتے۔“ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 985]
985 ۔ اردو حاشیہ:
➊ صحیح بخاری (حدیث: 701) میں عشاء کی نماز کا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یا تو اسے تعدد واقعات پر محمول کیا جائے گا، یعنی مغرب اور عشاء دونوں نمازوں میں یہ واقعہ ہوا، یا عشاء کی نماز کے لیے مغرب کا لفظ مجاراً بول دیا گیا (کیونکہ یہ دونوں رات کی نمازیں ہیں جیسے احادیث میں عشاء اولی اور عشاء آخرہ کے لفظ ملتے ہیں)۔ ورنہ جو صحیح بخاری میں ہے، وہی زیادہ صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ دیکھیے: [فتح الباري: 251/2، تحت حدیث: 701]
➋ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مفترض (فرض پڑھنے والا) متنفل (نفل پڑھنے والا) کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے، یعنی امام متنفل ہو اور مقتدی مفترض کیونکہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ کر آتے تھے، پھر اپنی قوم کو آکر پڑھاتے تھے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی نماز نفل ہوتی تھی۔
➌ کسی عذر کی بنا پر مقتدی نماز سے نکل سکتا ہے۔
➍ مقتدیوں کا خیال رکھتے ہوئے نماز ہلکی پڑھانا مستحب ہے۔
➎ جب مسجد میں جماعت ہو رہی ہو تو کسی شرعی عذر کی وجہ سے کوئی آدمی اکیلا نماز پڑھ لے تو جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 985
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث986
´جو شخص امامت کرے وہ نماز ہلکی پڑھائے۔`
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور نماز لمبی کر دی، ہم میں سے ایک آدمی چلا گیا اور اکیلے نماز پڑھ لی، معاذ رضی اللہ عنہ کو اس شخص کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کہا: یہ منافق ہے، جب اس شخص کو معاذ رضی اللہ عنہ کی بات پہنچی، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو معاذ رضی اللہ عنہ کی بات بتائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاذ! کیا تم فتنہ پرداز ہونا چاہتے ہو؟ جب لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو «والشمس وضحاها»، «سبح اسم ربك الأعلى» «والليل إذا يغشى» اور «۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 986]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کی نظر میں نماز باجماعت کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔
اس لئے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس قدر شدید ردعمل کا اظہار فرمایا۔
(2)
جس کی شکایت کی گئی ہو۔
اس کا موقف بھی معلوم کرنا چاہیے۔
تاکہ فریقین کی بات سن کر صحیح نتیجے تک پہنچا جا سکے۔
(3)
عشاء کی نماز میں قراءت مختصر ہونی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 986
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1040
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (عشاء) کی نماز پڑھا کرتے تھے، پھر آ کر اپنے قبیلہ کی مسجد میں امامت کرواتے تھے، ایک رات انہوں نے عشاء کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی، پھر اپنی قوم کے پاس آئے اور ان کی امامت کی اور (سورہٴ فاتحہ کے بعد) سورہٴ بقرہ پڑھنی شروع کر دی، ایک شخص نماز سے سلام پھیر کر الگ ہو گیا، پھر اکیلا نماز پڑھ کر چلا گیا، (اس کے بلا جماعت، اکیلے نماز پڑھنے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1040]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
فَتَّانٌ:
فتنہ پرور،
ابتلاء وآزمائش میں ڈالنے والا،
یعنی یہ چیز لوگوں کے لیے نماز سے پیچھے رہنے کا سبب بن سکتی ہے،
حالانکہ جماعت کا اہتمام ضروری ہے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے الگ نماز پڑھنے والے کو منافق کہا)
۔
فوائد ومسائل:
1۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز ہو سکتی ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ حضرت معاذ مسجد نبوی میں جہاں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں سے زیادہ ہے۔
اورآپﷺ کی اقتداء میں جہاں نماز پڑھنے میں خشوع وخضوع اور طمانیت وتسکین زیادہ ہے فرض نماز ہی پڑھتے تھے کیونکہ پہلے انہوں نے نماز نہیں پڑھی ہوئی ہوتی کہ یہ نماز نفلی ہو جاتی۔
مزید برآں بعض روایات میں یہ تصریح موجود ہے،
کہ ان کی نماز قوم کے ساتھ نفلی ہوتی تھی۔
(هِيَ لَهُ تَطُوَّع وَهِيَ لَهُمْ فَرِيْضَة)
یہ نماز معاذ کی نفل اور قوم کی فرض ہوتی تھی۔
اس لیے احناف اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ نظریہ درست نہیں ہے کہ متنفل کے پیچھے مفرض کی نماز نہیں ہوتی۔
2۔
امام کو چاہیے کہ وہ نماز اتنی طویل نہ پڑھے،
جو مقتدیوں کے لیے مشقت کا باعث ہو،
خاص کر جبکہ اس کے مقتدی،
ضعیف،
بوڑھے اور محنت پیشہ لوگ ہوں۔
3۔
ایک واضح اور کھلی بات کی مخالفت کرنے والوں کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی جا سکتی ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھ کر جاتےتھے۔
اس طرح انہیں آپﷺ کی قراءت کا پتہ چلتا رہتا تھا،
اس کے باجود انہوں نے اس کو نظر انداز کیا،
اور اپنے پیچھے محنت ومشقت کرنے والے نمازیوں کا خیال نہ رکھا تو آپﷺ نے سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1040
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6106
6106. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ نماز (عشاء) پڑھتے۔ پھر اپنی قوم کے پاس آتے اور انہیں نماز پڑجاتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ نماز میں سورہ بقرہ پڑھی تو ایک صاحب جماعت سے الگ ہو گئے اور ہلکی سی نماز پڑھ لی۔ جب اس بات کا علم حضرت معاذ ؓ کو ہوا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! ہم لوگ اپنے ہاتھوں سے محنت ومشقت کرتے ہیں اور اپنے اونٹوں پر پانی بھر کرلاتے ہیں حضرت معاذ ؓ نے ہمیں کل رات نماز پڑھائی اور سورہ بقرہ پڑھنا شروع کر دی۔ میں نماز توڑ کر الگ ہو گیا اور ہلکی سی نماز ادا کر لی۔ اس پر حضرت معاذ ؓ نے مجھے منافق خیال کیا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! کیا تم فتنہ انگیزی کرتے ہو؟ یہ الفاظ آپ نے تین مرتبہ دہرائے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”تم (والشمس وضحھا) اور (سبع اسم ربك الأعلی) جیسی سورتیں پڑھا کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6106]
حدیث حاشیہ:
امامان مساجد کو یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہیے۔
اللہ توفیق دے آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6106
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 705
705. حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شخص آبپاشی کے دو اونٹ لے کر آیا جبکہ رات کافی گزر چکی تھی، اتفاقا حضرت معاذ ؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ اس نے اپنے اونٹ بٹھائے اور حضرت معاذ ؓ کی طرف نماز کے لیے چلا آیا۔ انہوں نے سورہ بقرۃ یا سورۃ نساء پڑھنی شروع کر دی، چنانچہ وہ شخص وہاں سے چلا گیا اور اسے معلوم ہوا کہ حضرت معاذ نے اس کے متعلق کوئی تکلیف دہ بات کہی ہے۔ وہ شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے حضرت معاذ ؓ کی شکایت کی تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ”اے معاذ! کیا تو فتنہ پرور یا فتنہ انگیز ہے؟ تو نے ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ ، ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾ اور ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھائی جبکہ تیرے پیچھے عمر رسیدہ، ناتواں اور ضرورت مند لوگ نماز پڑھتے ہیں۔“ (شعبہ کہتے ہیں کہ) میرے گمان کے مطابق آخری جملہ بھی حدیث کا حصہ ہے۔ (امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بیان کرنے میں) سعید۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:705]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ایک نہایت اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا کسی ایسے کام کے بارے میں جو خیر محض ہو شکایت کی جاسکتی ہے یا نہیں۔
نماز ہر طرح خیر ہی خیر ہے، کسی برائی کا اس میں کوئی پہلو نہیں۔
اس کے باوجود اس سلسلے میں ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے شکایت کی اور آنحضور ﷺ نے اسے سنا اور شکایت کی طر ف بھی توجہ فرمائی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں بھی شکایت بشرطیکہ معقول اور مناسب ہو جائز ہے۔
(تفہیم البخاری)
دوسری روایت میں ہے کہ سورۃ الطارق اور ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾ یا ﴿سبح اسم﴾ یا ﴿اقتربت الساعة﴾ پڑھنے کا حکم فرمایا۔
مفصل قرآن کی ساتویں منزل کا نام ہے۔
یعنی سورۃ ق سے آخر قرآن تک۔
پھر ان میں تین ٹکڑے ہیں۔
طوال یعنی ق سے سورۃ عم تک۔
اور اوساط یعنی بیچ کی عم سے والضحیٰ تک۔
قصار یعنی چھوٹی والضحیٰ سے آخر تک۔
ائمہ کو ان ہدایات کا مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 705
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:705
705. حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شخص آبپاشی کے دو اونٹ لے کر آیا جبکہ رات کافی گزر چکی تھی، اتفاقا حضرت معاذ ؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ اس نے اپنے اونٹ بٹھائے اور حضرت معاذ ؓ کی طرف نماز کے لیے چلا آیا۔ انہوں نے سورہ بقرۃ یا سورۃ نساء پڑھنی شروع کر دی، چنانچہ وہ شخص وہاں سے چلا گیا اور اسے معلوم ہوا کہ حضرت معاذ نے اس کے متعلق کوئی تکلیف دہ بات کہی ہے۔ وہ شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے حضرت معاذ ؓ کی شکایت کی تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ”اے معاذ! کیا تو فتنہ پرور یا فتنہ انگیز ہے؟ تو نے ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ ، ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾ اور ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھائی جبکہ تیرے پیچھے عمر رسیدہ، ناتواں اور ضرورت مند لوگ نماز پڑھتے ہیں۔“ (شعبہ کہتے ہیں کہ) میرے گمان کے مطابق آخری جملہ بھی حدیث کا حصہ ہے۔ (امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بیان کرنے میں) سعید۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:705]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت معاذ بن جبل ؓ اور حضرت ابو مسعود انصاری ؓ کی روایت میں بیان شدہ واقعہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر مختلف ہے:
٭ واقعۂ معاذ میں نماز عشاء کا ذکر ہے جبکہ حضرت ابو مسعود کی روایت نماز صبح سے متعلق ہے۔
٭حضرت معاذ ؓ کے واقعہ میں وہ خود امام تھے جبکہ ابو مسعود ؓ کی روایت میں حضرت ابی بن کعب ؓ کی امامت کا ذکر ہے۔
٭حضرت معاذ ؓ اپنی قوم بنو سلمہ کے امام تھے جبکہ ابو مسعود ؓ کی روایت میں مسجد قباء کی امامت کا ذکر ہے۔
٭ حضرت معاذ ؓ سے اختلاف کرنے والاکوئی ایک انصاری نوجوان ہے۔
(فتح الباري: 256/2) (2)
حضرت جابر ؓ کی روایت کے آخر میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان:
” نماز میں بوڑھوں،عمر رسیدہ اور ضرورت مند حضرات کا خیال رکھنا چاہیے۔
“ یہ کسی راوی کا سہو ہے کیونکہ یہ ارشاد نبوی حضرت ابو مسعود ؓ کی روایت کا حصہ ہے، اس لیے اس اضافے کو محارب سے شعبہ کے علاوہ اور کوئی بیان نہیں کرتا، اسی طرح حضرت جابر ؓ سے بیان کرنے والا کوئی دوسرا راوی ان الفاظ کا ذکر نہیں کرتا۔
(3)
حدیث میں مذکور الفاظ (أحسب في هذا الحديث)
مختلف فیہ ہیں۔
فتح الباری اور صحیح بخاری کے دیگر نسخوں میں یہ الفاظ (أحسب في هذا الحديث)
یا (أحسب في الحديث)
منقول ہیں، البتہ مفہوم کے اعتبار سے (أحسب في هذا الحديث)
ہی درست معلوم ہوتے ہیں۔
اس سے مراد یہ ہے کہ هذا کا مشار الیہ آخری جملہ (فانه يصلي وراءك۔
۔
۔
الحاجة)
ہے۔
شعبہ کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق یہ جملہ بھی حدیث کا جز اور حصہ ہے۔
(4)
واضح رہے کہ جماعت کے دوران میں مندرجہ ذیل حضرات کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
جیسا کہ متعدد دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے:
ضعیف وناتواں، بیمار، نوعمر بچہ، عمر رسیدہ، حاملہ عورت، دودھ پلانے والی، مسافر اور ضرورت مند حضرات۔
(فتح الباري: 260/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 705
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6106
6106. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ نماز (عشاء) پڑھتے۔ پھر اپنی قوم کے پاس آتے اور انہیں نماز پڑجاتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ نماز میں سورہ بقرہ پڑھی تو ایک صاحب جماعت سے الگ ہو گئے اور ہلکی سی نماز پڑھ لی۔ جب اس بات کا علم حضرت معاذ ؓ کو ہوا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! ہم لوگ اپنے ہاتھوں سے محنت ومشقت کرتے ہیں اور اپنے اونٹوں پر پانی بھر کرلاتے ہیں حضرت معاذ ؓ نے ہمیں کل رات نماز پڑھائی اور سورہ بقرہ پڑھنا شروع کر دی۔ میں نماز توڑ کر الگ ہو گیا اور ہلکی سی نماز ادا کر لی۔ اس پر حضرت معاذ ؓ نے مجھے منافق خیال کیا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! کیا تم فتنہ انگیزی کرتے ہو؟ یہ الفاظ آپ نے تین مرتبہ دہرائے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”تم (والشمس وضحھا) اور (سبع اسم ربك الأعلی) جیسی سورتیں پڑھا کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6106]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ شخص کو منافق کہا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تکفیر کرنے کے بجائے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ کلمہ کہنے میں معذور خیال کیا کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اسے منافق کہنے کی ایک معقول وجہ رکھتے تھے کہ جماعت کا تارک منافق ہوتا ہے اور مذکورہ شخص نے جماعت چھوڑ دی تھی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو سمجھایا اور سمجھاتے وقت ذرا سخت رویہ اختیار کیا اور آپ کا مقصد یہ تھا کہ اس آدمی کو منافق نہیں کہنا چاہیے تھا، اگرچہ اس بات میں یہ تاویل کی جائے کہ تارک جماعت منافق ہے۔
(2)
امام کو چاہیے کہ وہ مقتدی حضرات کا خیال رکھے کیونکہ ان میں کمزور، ناتواں، ضرورت مند اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں، جماعت کراتے وقت چھوٹی چھوٹی سورتوں کا انتخاب کیا جائے۔
لمبی سورتیں پڑھ کر لوگوں کو فتنے میں مبتلا نہ کیا جائے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کو منافق کہنے میں کوئی معقول تاویل پیش نظر ہے تو کہنے والا منافق نہیں ہو گا بلکہ اسے تاویل کی وجہ سے معذور تصور کیا جائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6106