Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ
کتاب: وضو کے بیان میں
35. بَابُ الرَّجُلِ يُوَضِّئُ صَاحِبَهُ:
باب: اس شخص کے بارے میں جو اپنے ساتھی کو وضو کرائے۔
حدیث نمبر: 181
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَفَاضَ مِنْ عَرَفةَ عَدَلَ إِلَى الشِّعْبِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، قَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ: فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَيْهِ وَيَتَوَضَّأُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي؟ فَقَالَ: الْمُصَلَّى أَمَامَكَ"‏‏.‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن ہارون نے یحییٰ سے خبر دی، وہ موسیٰ بن عقبہ سے، وہ کریب ابن عباس کے آزاد کردہ غلام سے، وہ اسامہ بن زید سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفہ سے لوٹے، تو (پہاڑ کی) گھاٹی کی جانب مڑ گئے، اور رفع حاجت کی۔ اسامہ کہتے ہیں کہ پھر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (اعضاء) پر پانی ڈالنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے رہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! آپ (اب) نماز پڑھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کا مقام تمہارے سامنے (یعنی مزدلفہ میں) ہے۔ وہاں نماز پڑھی جائے گی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 181 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 181  
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وضو میں دوسرے آدمی کی مدد لینا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 181   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:181  
حدیث حاشیہ:

ابن بطال نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لیے کسی دوسرے سے وضو کا پانی منگوانا ناپسند خیال کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہم کسی دوسرے کو اپنے وضو میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔
لیکن استنادی اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں۔
صحیح روایت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وضو کے متعلق دوسروں سے تعاون لینا ثابت ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کو وضو کرا سکتا ہے۔
اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ مریض کو جب تیمم کرنے کی طاقت نہ ہوتو دوسرا شخص اسے تیمم کرا سکتا ہے۔
مگر جب مریض نماز پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہوتو کوئی دوسراشخص اس کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا ہے۔
(شرح ابن بطال: 278/1)

وضو کے سلسلے میں اعانت کی تین صورتیں ہیں:
(الف)
۔
کسی شخص سے وضو کرنے کے لیے پانی منگوانا، اس میں کوئی کراہت نہیں، یہ بلاشبہ جائز ہے۔
لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسے خلاف اولیٰ قرار دیا ہے۔
(ب)
۔
وضو خود کرے لیکن اعضائے وضو پرپانی ڈالنے کے لیے کسی دوسرے سے مدد لے، یہ بھی جائز ہے، لیکن اسے بہتر نہیں قرار دیا جاسکتا۔
(ج)
۔
عمل وضو میں مدد لینا، یعنی پانی دوسرا شخص ڈالے اور اعضائے وضو کو بھی دھوئے، اس قسم کی مدد کسی مجبوری کی وجہ سے تو جائز ہے لیکن بلاوجہ ایسا کرنا ناپسندیدہ فعل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان میں تو اعانت کی اقسام کی گنجائش ہے، لیکن جو روایات پیش فرمائی ہیں۔
ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اعانت کی دوسری قسم کا جواز پیش نظر ہے کیونکہ ان روایات میں صراحت ہے کہ حضرت اسامہ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما صرف پانی ڈال رہے تھے، لیکن وضو کا عمل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرانجام دیتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی خدمات، خدام سے لی جاسکتی ہیں۔
(عمدة القاري: 516/2)

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا:
نماز کی جگہ تیرے آگے ہے۔
دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے مزدلفہ جا رہے تھے۔
نویں ذوالحجہ کو (نو اور دس ذوالحجہ کی درمیانی شب)
نماز مغرب اور نمازعشاء مزدلفہ میں ادا کی جاتی ہیں، اس لیے آپ نے فرمایا کہ آج مغرب کی نماز کا مقام مزدلفہ ہے جو آگے آ رہا ہے، وہاں مغرب اور عشاء دونوں نمازیں اکھٹی ادا کی جاتی ہیں۔
اس کے متعلق دیگرمسائل کتاب الحج میں بیان ہوں گے۔
إن شاء اللہ۔

واضح رہے کہ مذکورہ عنوان مستقل نہیں بلکہ باب در باب کی قسم سے ہے کیونکہ اس سے پہلے عنوان تھا کہ بول وبراز کے راستے سے کسی چیز کا خارج ہونا ناقض وضوہے۔
یہ دونوں احادیث بھی اس عنوان کے ثبوت کے لیے تھیں لیکن ان احادیث سے ایک نیا فائدہ بھی معلوم ہو رہا تھا، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی آگاہی کے لیے ایک نیا عنوان قائم کر دیا کہ وضو کے سلسلے میں کسی دوسرے سے مدد لی جا سکتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 181   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 139  
´وضو پورا کرنے کے بارے میں`
«. . . عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ: دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالشِّعْبِ نَزَلَ فَبَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَلَمْ يُسْبِغِ الْوُضُوءَ، فَقُلْتُ: الصَّلَاةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: الصَّلَاةُ أَمَامَكَ، فَرَكِبَ، فَلَمَّا جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ نَزَلَ فَتَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ كُلُّ إِنْسَانٍ بَعِيرَهُ فِي مَنْزِلِهِ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الْعِشَاءُ فَصَلَّى وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا . . .»
. . . اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات سے واپس ہوئے۔ جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور خوب اچھی طرح نہیں کیا۔ تب میں نے کہا، یا رسول اللہ! نماز کا وقت (آ گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز، تمہارے آگے ہے (یعنی مزدلفہ چل کر پڑھیں گے) جب مزدلفہ میں پہنچے تو آپ نے خوب اچھی طرح وضو کیا، پھر جماعت کھڑی کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنی جگہ بٹھلایا، پھر عشاء کی جماعت کھڑی کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ: 139]
تشریح:
پہلی مرتبہ آپ نے وضو صرف پاکی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔ دوسری مرتبہ نماز کے لیے کیا تو خوب اچھی طرح کیا، ہر اعضائے وضو کو تین تین بار دھویا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھنا چاہئیے۔ اس رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آب زمزم سے وضو کیا تھا۔ جس سے آبِ زمزم سے وضو کرنا بھی ثابت ہوا۔ [فتح الباري]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 139   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1672  
1672. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ عرفات سے واپس ہوئے تو گھاٹی میں اترے۔ وہاں پیشاب کیا۔ پھر وضو فرمایا لیکن پورا نہیں بلکہ ہلکا سا تھا۔ میں نے آپ سے عرض کیا: نماز پڑھنی ہے؟آپ نے فرمایا: نماز تو آگے ہوگی۔ اس کے بعد آپ مزدلفہ تشریف لائے اوروضو کیا، یعنی کامل وضو کیا۔ پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو آپ نے نماز مغرب پڑھی۔ پھر یہ آدمی نے اپنا اونٹ اپنے ٹھکانے پر بٹھایا۔ پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو آپ نے نماز عشاء پڑھائی اور ان کے درمیان کوئی نفل وغیرہ نہیں پڑھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1672]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے مزدلفہ میں جمع کرنا ثابت ہوا جو باب کا مطلب ہے اور یہ بھی نکلا کہ اگر دو نمازوں کے بیچ میں جن کو جمع کرنا ہو آدمی کوئی تھوڑا سا کام کر لے تو قباحت نہیں۔
یہ بھی نکلا کہ جمع کی حالت میں سنت وغیرہ پڑھنا ضروری نہیں، یہ جمع شافعیہ کے نزدیک سفر کی وجہ سے ہے اور حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک حج کی وجہ سے ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1672   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 139  
139. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے، جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ اترے، پیشاب کیا، پھر وضو فرمایا لیکن وضو پورا نہ کیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! نماز کا وقت قریب ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز آگے چل کر پڑھیں گے۔ پھر آپ سوار ہوئے، جب مزدلفہ آئے تو اترے اور پورا وضو کیا، پھر نماز کی تکبیر کہی گئی اور آپ نے مغرب کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد ہر شخص نے اپنا اونٹ اپنے مقام پر بٹھایا، پھر عشاء کی تکبیر ہوئی اور آپ نے نماز پڑھی اور دونوں کے درمیان نفل وغیرہ نہیں پڑھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:139]
حدیث حاشیہ:
پہلی مرتبہ آپ نے وضو صرف پاکی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔
دوسری مرتبہ نماز کے لیے کیا توخوب اچھی طرح کیا، ہر اعضائے وضو کو تین تین باردھویا۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو ملا کر پڑھنا چاہئیے۔
اس رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آب زمزم سے وضو کیا تھا۔
جس سے آبِ زمزم سے وضو کرنا بھی ثابت ہوا۔
(فتح الباری)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 139   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 178  
´قصر نمازمیں سنتوں کی ادائیگی نہیں ہے`
«. . . مالك عن موسى بن عقبة عن كريب مولى ابن عباس عن اسامة بن زيد انه سمعه يقول: دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة، حتى إذا كان بالشعب نزل فبال ثم توضا ولم يسبغ الوضوء، فقلت له: الصلاة، فقال: الصلاة امامك. فركب. فلما جاء المزدلفة نزل فتوضا واسبغ الوضوء، ثم اقيمت الصلاة فصلى المغرب، ثم اناخ كل إنسان بعيره فى منزله، ثم اقيمت العشاء فصلاها، ولم يصل بينهما شيئا . . .»
. . . سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے واپس لوٹے حتیٰ کہ جب (مزدلفہ سے پہلے) ایک گھاٹی پر اترے تو پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور پورا وضو نہ کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: نماز پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز آگے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور جب مزدلفہ میں پہنچے تو اتر کر وضو کیا اور پورا وضو کیا، پھر نماز کی اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہر انسان نے اپنے اونٹ کو اپنے مقام پر بٹھا دیا۔ پھر عشاء کی اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 178]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 139، ومسلم 1280، من حديث مالك به]
تفقه:
① مزدلفہ پہنچ کر نماز بلاتاخیر پڑھنی چاہئے۔ صحابہ نے سواریوں کے بیٹھنے کا بھی انتظار نہیں کیا، مغرب کی نماز پڑھ کر سواریاں بٹھائیں۔
پورا وضو نہ کیا سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تخفیف فرمائی، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں «باب التخفيف فى الوضوء» سے وضاحت کی ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري قبل حديث: 138] یعنی اعضائے وضو پر پانی کم بہایا اور زیادہ مَلنے یا دھونے کے بجائے ایک دفعہ پر ہی اکتفا کیا۔ «والله اعلم»
③ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں مزدلفہ میں پڑھتے تھے۔ [الموطأ 1/401 ح927 وسنده صحيح]
④ بعض لوگ ایام حج میں پوری نمازیں پڑھتے رہتے ہیں، ان کا یہ عمل احادیث ِ صحیحہ کے خلاف ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر کر فرمایا: اے مکے والو! اپنی نمازیں پوری کرو، ہم مسافر ہیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں دو رکعتیں پڑھائیں تو ہم تک یہ نہیں پہنچا کہ انہوں نے مکے والوں سے کچھ فرمایا ہو۔ [الموطأ 4٠2/1 4٠3 ح93٠ وسنده صحيح]
عرفات سے واپسی کے بعد مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں مزدلفہ کی وادی میں جمع کر کے (اور قصر کے ساتھ) پڑھنی چاہئیں- ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی سنتیں یا نوافل نہیں ہیں- نیز دیکھئے حدیث: 488
⑥ امام مالک نے فرمایا: مکے والے بھی حج (کے دنوں) میں مکہ واپس آنے تک دو دو رکعتیں ہی پڑھیں گے۔ [الموطا 1 / 402 وترقيم الاستذكار: 868]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 190   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3027  
´عرفات سے چلنے کے بعد گھاٹی میں اترنے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفہ سے لوٹے تو پہاڑ کی گھاٹی کی طرف مڑے، وہ کہتے ہیں: تو میں نے عرض کیا: کیا (یہاں) آپ مغرب کی نماز پڑھیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز پڑھنے کی جگہ آگے ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3027]
اردو حاشہ:
آپ پیشاب کے لیے اترے تھے۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ کسی ضرورت کے لیے راستے میں ٹھہرا جا سکتا ہے ورنہ نمازیں تو مزدلفہ ہی میں ہوں گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3027   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3028  
´عرفات سے چلنے کے بعد گھاٹی میں اترنے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی میں اترے جہاں امراء اترتے ہیں، تو آپ نے پیشاب کیا، پھر ہلکا وضو کیا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا نماز کا ارادہ ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز آگے ہو گی (یعنی آگے چل کر پڑھیں گے) تو جب ہم مزدلفہ آئے، تو ابھی (قافلے کے) پیچھے والے لوگ اترے بھی نہ تھے کہ آپ نے نماز شروع کر دی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3028]
اردو حاشہ:
(1) گھاٹی میں اترنا کوئی سنت نہیں، نہ صحابہ اترے تھے۔ رسول اللہﷺ کا اترنا ضرورت کے لیے تھا۔ (2)نماز پڑھیں گے؟ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں: اے اللہ کے رسول! نماز پڑھ لیں یا اے اللہ کے رسول! نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ (3) سامان نہیں اتارے تھے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ابھی سب لوگ مزدلفہ میں نہیں پہنچے تھے کہ آپ نے نماز پڑھا دی، مگر پہلے معنی زیادہ صحیح ہیں اور دوسری احادیث سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں، غور فرمائیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3028   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3019  
´ضرورت پڑنے پر عرفات اور مزدلفہ کے درمیان اترنے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات سے لوٹا، جب آپ اس گھاٹی پر آئے جہاں امراء اترتے ہیں، تو آپ نے اتر کر پیشاب کیا، پھر وضو کیا، تو میں نے عرض کیا: نماز (پڑھ لی جائے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز تمہارے آگے (پڑھی جائے گی) پھر جب مزدلفہ میں پہنچے تو اذان دی، اقامت کہی، اور مغرب پڑھی، پھر کسی نے اپنا کجاوہ بھی نہیں کھولا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور عشاء پڑھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3019]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
عرفات سے واپسی پر مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں ادا کی جاتیں ہیں۔

(2)
دونمازیں ایک اذان سے ادا کی جاتی ہیں، البتہ اقامت دونوں کے لیے الگ الگ ہوتی ہے۔

(3)
اس موقع پر مغرب اور عشاء کے درمیان تھوڑا سا وقفہ کرلینا درست ہے۔

(4)
مزدلفہ میں ٹھرنا حج کا رکن ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3019   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3099  
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے واپس لوٹے، جب گھاٹی کے پاس پہنچے، تو سواری سے اتر کر پیشاب کیا، پھر وضو کیا، اور پورا وضو نہیں کیا، (ہلکا وضو کیا) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، نماز پڑھنا چاہتے ہیں، آپ نے فرمایا: نماز آگے ہے۔ اور سوار ہو گئے، جب مزدلفہ پہنچے، اتر کر وضو کیا اور کامل وضو کیا، پھر تکبیر کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز ادا کی، پھر ہر انسان نے اپنا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3099]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازوں کو عشاء کے وقت جمع کر کے پڑھنا مسنون ہے۔
اس بارے میں تمام ائمہ کا اتفاق ہے اور ان دونوں کے درمیان وقفہ جائز ہے لیکن مسنون یہ ہے کہ اس وقفہ میں کوئی سنت یا نفل نماز نہ پڑھی جائے سنت یہی ہے کہ مغرب اور عشاء کی نمازوں کو عشاء کے وقت مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھا جائے۔
لیکن اگر کوئی شخص راستہ میں انہیں مغرب کے وقت جمع کر کے پڑ ھ لے یا ا پنے اپنے وقت پر تو یہ بھی جائز ہے اگرچہ بہتر نہیں ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دوسرے حضرات کا یہی مؤقف ہے،
ان کے نزدیک جمع بین الصلاتین سفر کی وجہ سے ہے،
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ۔
داؤد ظاہری اور بعض مالکی علماء کے نزدیک مغرب وعشاء کی نمازوں کا مزدلفہ سے پہلے پڑھنا یا عشاء کے وقت سے پہلے پڑھنا جائز نہیں ہے اگر کوئی پڑھ لے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ سورج نکلنے سے پہلے پہلے ان کا ارادہ کرلے،
کیونکہ ان کوجمع کر کے پڑھنا مناسک حج میں داخل ہے۔
(امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک طلوع فجر سے پہلے اعادہ نہ کر سکے تو اعادہ نہیں کر سکے گا۔
)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3099   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:139  
139. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے، جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ اترے، پیشاب کیا، پھر وضو فرمایا لیکن وضو پورا نہ کیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! نماز کا وقت قریب ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز آگے چل کر پڑھیں گے۔ پھر آپ سوار ہوئے، جب مزدلفہ آئے تو اترے اور پورا وضو کیا، پھر نماز کی تکبیر کہی گئی اور آپ نے مغرب کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد ہر شخص نے اپنا اونٹ اپنے مقام پر بٹھایا، پھر عشاء کی تکبیر ہوئی اور آپ نے نماز پڑھی اور دونوں کے درمیان نفل وغیرہ نہیں پڑھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:139]
حدیث حاشیہ:

مکمل وضو سے مراد وہ وضو ہے جس میں تمام فرائض و واجبات اورآداب و سنن کا خیال رکھا گیا ہو۔
دوسرے الفاظ میں مرات کے اعتبار سے تثلیث اور عمل کے لحاظ سے اعضائے وضو کو خوب مل کر دھونا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسباغ کی تفسیر انقاء سے کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اعضائے وضو کو خوب مل کر دھونا چاہیے تاکہ وہ اچھی طرح صاف ہو جائیں۔
اس سے اسراف سے اجتناب کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کیونکہ مقصد انقاء اور صفائی ہے۔
تکرار اتنی نہیں ہونی چاہیے کہ اسراف کی حد میں پہنچ جائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس تعلیق کو مصنف عبدالرزاق میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔
ان کے متعلق مروی ہے کہ اپنے پاؤں کو سات مرتبہ دھویا کرتے تھے۔
(الأوسط لإبن المنذر، حدیث: 401)
کیونکہ اہل عرب عام احوال میں ننگے پاؤں رہنے کے عادی تھے، اس لیے پاؤں کا دیگر اعضاء کے مقابلے میں زیادہ میلا ہو جانا ایک طبعی چیز ہے۔
(فتح الباري: 316/1)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے وضو کے بعد نماز ادا نہیں کی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ باوضو رہنے کے عادی تھے۔
اس سے ان حضرات کی بھی تردید ہوتی ہے جو اس وضو سے استنجا مراد لیتے ہیں کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ میں دوران وضو میں آپ کے اعضاء شریفہ پر پانی ڈالتا تھا، نیز مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمزم کے پانی سے وضو فرمایا۔
(زوائد مسند أحمد: 76/1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمزم کا پانی پینے کے علاوہ دوسرے کاموں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 316/1)
اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث كتاب الحج میں بیان ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 139   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1672  
1672. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ عرفات سے واپس ہوئے تو گھاٹی میں اترے۔ وہاں پیشاب کیا۔ پھر وضو فرمایا لیکن پورا نہیں بلکہ ہلکا سا تھا۔ میں نے آپ سے عرض کیا: نماز پڑھنی ہے؟آپ نے فرمایا: نماز تو آگے ہوگی۔ اس کے بعد آپ مزدلفہ تشریف لائے اوروضو کیا، یعنی کامل وضو کیا۔ پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو آپ نے نماز مغرب پڑھی۔ پھر یہ آدمی نے اپنا اونٹ اپنے ٹھکانے پر بٹھایا۔ پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو آپ نے نماز عشاء پڑھائی اور ان کے درمیان کوئی نفل وغیرہ نہیں پڑھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1672]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھنا چاہیے، چنانچہ حضرت جابر ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غروب آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوئے۔
پھر جب وہاں پہنچے تو مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ادا فرمایا اور ان دونوں کے درمیان نفل نہیں پڑھے۔
پھر لیٹ گئے حتی کہ فجر طلوع ہو گئی۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218) (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن دو نمازوں کو جمع کرنا ہے اگر ان کے درمیانی وقفے میں آدمی تھوڑا کام وغیرہ کر لے تو کوئی قباحت نہیں جیسا کہ صحابہ کرام ؓ نے نماز مغرب کے بعد اپنے اونٹ وغیرہ اپنے ٹھکانوں پر باندھے تھے۔
(3)
بعض فقہاء کے نزدیک نمازوں کو جمع کرنا سفر کی وجہ سے ہے جبکہ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ حج کی وجہ سے انہیں جمع کیا جاتا ہے۔
بہرحال مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ کے اسوہ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات آپ نے تہجد وغیرہ بھی نہیں پڑھی کیونکہ اگلے دن جو کام کرنے ہوتے ہیں وہ کافی محنت طلب اور اعصاب شکن ہیں، اس لیے ان کی ادائیگی کے لیے اس رات مکمل آرام کیا جائے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1672