سنن ابن ماجه
كتاب المساجد والجماعات
کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل
9. بَابُ : تَطْهِيرِ الْمَسَاجِدِ وَتَطْيِيبِهَا
باب: مساجد کو صاف اور معطر رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 758
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْحَكَمِ ، وَأَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ ، أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَرَ بِالْمَسَاجِدِ أَنْ تُبْنَى فِي الدُّورِ، وَأَنْ تُطَهَّرَ وَتُطَيَّبَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ”محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں، اور انہیں پاک و صاف رکھا جائے، اور ان میں خوشبو لگائی جائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17180)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 13 (455)، سنن الترمذی/الجمعة 64 (594)، مسند احمد (5/12، 271) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 758 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث758
اردو حاشہ:
(1)
شہر میں صرف ایک مرکزی مسجد ہونا کافی نہیں بلکہ ہر محلے میں مسجد ہونی چاہیے تاکہ مسلمان آسانی سے نماز باجماعت میں شریک ہوسکیں۔
ضرورت کے مطابق مناسب فاصلے پر دوسری مسجد بنائی جا سکتی ہے۔
(2)
مسجدوں کو صاف ستھرا رکھنا ضروری ہے کیونکہ اسلام میں صفائی بہت اہمیت رکھتی ہے۔
(3)
خوشبو سے مراد اگر بتی وغیرہ سلگانا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 758
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 195
´مسجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کو صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھنا چاہیے`
«. . . عن عائشة رضي الله عنها قالت: امر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ببناء المساجد في الدور، وان تنظف وتطيب . . .»
”. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں جائے نماز متعین کرنے اور ان کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا تھا . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 195]
� لغوی تشریح:
«بَابُ الْمَسَاجِد» مساجد، مسجد کی جمع ہے۔ مسجد کی ”جیم“ کے نیچے کسرہ ہے جس کے معنی ہیں: وہ جگہ جسے نماز پڑھنے کے لیے مخصوص کر لیا گیا ہو، اور ”جیم“ پر فتحہ بھی جائز ہے۔ اس صورت میں اس کے معنی مطلق سجدہ کرنے کی جگہ کے ہوں گے، یعنی سجدہ کرنے کی کوئی بھی جگہ۔
«فِي الدُّورِ» دور، دار کی جمع ہے جس کے معنی گھر کے ہیں، اور اس سے مراد محلہ یا قبیلہ ہے، اس لیے کہ محلے اور قبیلے میں بہت سے گھر ہوتے ہیں، یا گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ مراد ہے۔ پہلے معنی زیادہ عمدہ اور قریب الفہم ہیں۔
«وَأَنْ تُنَظَّف» «تَنْظِيف» سے ماخوذ صیغہ مجہول ہے، گندگیوں اور ناپاکیوں سے صاف کیا جائے۔
«وَتُطَيَّبَ» «تَطَيُّب» سے ماخوذ صیغہ مجہول ہے، یعنی اس میں خوشبو وغیرہ لگائی جائے۔
فوائد و مسائل:
➊ مسجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کو صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھنا چاہیے اور ان میں خوشبو لگانی چاہیے۔
➋ اس حدیث میں دور سے مراد محلے ہیں۔ محلوں میں چھوٹی چھوٹی مسجدیں ضرور ہونی چاہئیں۔ انہیں خوشبو سے معطر رکھنا چاہیے۔ ذاتی گھروں میں بھی نماز پڑھنے کی جگہ مخصوص ہونی چاہیے جہاں سنن ونوافل ادا کیے جا سکیں اور خواتین نماز ادا کر سکیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 195