Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب المساجد والجماعات
کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل
4. بَابُ : الْمَوَاضِعِ الَّتِي تُكْرَهُ فِيهَا الصَّلاَةُ
باب: جن جگہوں پر نماز مکروہ ہے ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 745
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى ، عَنْ أَبِيهِ ، وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدٌ، إِلَّا الْمَقْبَرَةَ وَالْحَمَّامَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبرستان اور حمام (غسل خانہ) کے سوا ساری زمین مسجد ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 24 (492)، سنن الترمذی/الصلاة 120 (317)، (تحفة الأشراف: 4406) وقد أخرجہ: مسند احمد (3/83، 96)، سنن الدارمی/الصلاة 111 (1430) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ان دو جگہوں کے سوا ہر جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں، اس لئے کہ قبرستان کی مٹی مردوں کی نجاستوں سے مخلوط ہے، اور حمام (غسل خانہ) گندگیوں کے ازالہ کی جگہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 745 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث745  
اردو حاشہ:
(1)
جہاں قبر سامنے ہو وہاں نماز پڑھنے سے منع ہونے میں یہ حکمت ہے کہ ظاہری طور پر قبر کو سجدہ کی صورت نہ بنے۔
اگرچہ ارادہ قبر یا صاحب قبر کو سجدہ کرنے کا نہ ہو۔
نماز جنازہ میں بھی رکوع اور سجدہ مقرر نہیں کیا گیا کیونکہ میت سامنے ہوتی ہےتاکہ ظاہری طور پر بھی سجدہ کی صورت نہ بن جائے اسی وجہ سےجو شخص کسی کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا وہ بعد میں اس کی قبر پر جنازہ پڑھ سکتا ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجه، حديث: 1533، 1527)

(2)
بعض لوگ کسی نبی یا ولی کی قبر کے پاس مسجد بنا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مدفون ہستی کی برکات کی وجہ سے یہاں نماز پڑھنا افضل ہے حالانکہ یہ بھی شرعاً منع ہے اگرچہ نماز پڑھتے وقت قبر سامنے نہ بھی ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بزرگوں اور انبیاء کی قبروں پر عبادت گاہیں بنانا یہود و نصاری کی عادت ہے۔
رسول اللہ ﷺنے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
اللہ کی لعنت ہو یہودونصاری پر جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ (صحيح البخاري، الصلوة، حديث: 436، 435)
وصحيح مسلم، المساجد، باب النهي عن بناءالمساجد علي القبور۔
۔
۔
۔
۔
، حديث: 529)

(3)
بعض لوگ مسجد میں قبر کے جواز کے لیے یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ حطیم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر ہے حالانکہ وہ کعبہ کا حصہ ہے۔
اسی طرح مسجد نبوی میں نبی اکرم ﷺ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ کی قبریں ہیں۔
یہ دلیل اس لیے درست نہیں کہ حطیم میں اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر ہونا ثابت بھی ہو تو اس کا نشان مٹ چکا ہے لہذا وہ قبر کے حکم میں نہیں رہی۔
اور نبی اکرم ﷺ اور شیخین رضی اللہ عنہ کی قبریں مسجد نبوی سے باہر بنائی گئی تھیں۔
ان کو مسجد میں شامل کرنے کا حکم نہ اللہ نے دیا نہ اس کے رسول ﷺ نے نہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا۔
بعد کے زمانوں کے غلط کام کسی شرعی مسئلہ کی دلیل نہیں بن سکتے۔
ویسے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا حجرہ مبارکہ جس میں یہ قبریں موجود ہیں چاروں طرف سے بند ہے وہاں جانا ممکن نہیں اس طرح گویا انھیں مسجد سے الگ کردیا گیا ہے۔
اس کے باوجود محتاط علمائے کرام یہی کہتے ہیں کہ اگر دور حاضر کے حکام اس حصے کو دیوار کے ذریعے مسجد سے الگ کردیتے جہاں آنے جانے کا راستہ بالکل الگ ہوتا تو یہ بہت بہتر ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 745   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 167  
´قبرستان اور حمام میں نماز درست نہیں`
«. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏الارض كلها مسجد إلا المقبرة والحمام . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبرستان اور حمام کے ماسوا ساری زمین مسجد ہے (جہاں چاہے نماز پڑھ لے)۔ . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 167]
لغوی تشریح:
«وَلَه عِلَّةٌ» اور اس میں ایک علت ہے۔ وہ علت یہ ہے کہ حماد نے اسے موصول روایت کیا ہے جبکہ امام ثوری رحمہ اللہ نے اسے مرسل روایت کیا ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ اور بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل سند ہی سے محفوظ ہے۔ لیکن بعض حضرات نے اس کا موصول ہونا صحیح قرار دیا ہے اور یہی راجح ہے۔ اس کی تائید دیگر احادیث سے بھی ہوتی ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبرستان اور حمام میں نماز درست نہیں۔ حمام میں اس لیے کہ وہ جگہ ناپاک ہے اور قبرستان میں ممانعت کا سبب سد ذرائع کے طور پر شرک سے بچنے کے لیے ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 167   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 492  
´ان جگہوں کا بیان جہاں پر نماز ناجائز ہے۔`
ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور موسیٰ (موسیٰ بن اسمٰعیل) نے اپنی روایت میں کہا، عمرو (عمرو بن یحییٰ) کا خیال ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): ساری زمین نماز پڑھنے کی جگہ ہے، سوائے حمام (غسل خانہ) اور قبرستان کے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 492]
492۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ سندوں میں سے روایت مسدد یقینی طور پر مرفوع ہے۔ مگر عمرو بن یحیٰی کی روایت میں گمان ہے۔ یقین نہیں۔ محدثین کرام فرامین رسول کے نقل کرنے میں بہت ہی حساس اور محتاط واقع ہوئے تھے۔
➋ قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ مقامات جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی، تیرہ ہیں۔ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر، ذبح خانہ، مقبرہ، راستے کے درمیان، حمام، اونٹوں کا باڑا، بیت اللہ کی چھت، قبرستان کے رخ پر، بیت الخلاء کی دیوار کی طرف جب کہ اس کی طرف نجاست لگی ہو، یہودیوں اور عیسایؤں کے عبادت خانے، بتوں اور تصویروں کی طرف رخ کر کے، مقام عذاب اور عراقی نے مزید اضافہ کیا کہ غصب شدہ زمین پر، مسجد ضرار اور وہ جگہ جہاں تنور سامنے ہو تفصیل کے لئے دیکھیں: [نيل الأوطار، باب المواضع المنهي عنها والمازون فيها لصلوة 55/2]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 492   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 317  
´قبرستان اور حمام (غسل خانہ) کے علاوہ پوری زمین سجدہ گاہ ہے۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوائے قبرستان اور حمام (غسل خانہ) کے ساری زمین مسجد ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 317]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی جہا ں چاہو نماز پڑھو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبرستان اور حمام میں نماز پڑھنی درست نہیں،
حمام میں اس لیے کہ یہاں نجاست نا پاکی کا شک رہتا ہے اور قبرستان میں ممانعت کا سبب شرک سے بچنے کے لیے سد باب کے طور پر ہے۔
بعض احادیث میں کچھ دیگر مقامات پر نماز ادا کرنے سے متعلق بھی ممانعت آئی ہے،
ان کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 317