Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب المساجد والجماعات
کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل
1. بَابُ : مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا
باب: اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنانے والے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 736
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا، بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ".
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا جوئی کے لیے مسجد بنوائی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 4 (533)، سنن الترمذی/الصلاة 120 (318)، (تحفةالأشراف: 9837)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 65 (450)، مسند احمد (1/61، 70)، سنن الدارمی/الصلاة 113 (1432) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مسجد کو دنیا کے گھروں پر فضیلت ہوتی ہے، ویسے ہی اس گھر کو جنت کے دوسرے گھروں پر فضیلت ہو گی، مقصد یہ نہیں ہے کہ مسجد کے برابر ہی جنت میں گھر بنے،  «اللهم ارزقنا جنة الفردوس» آمين.

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 736 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث736  
اردو حاشہ:
(1)
  اللہ کے لیے مسجد بنانے کا مطلب یہ ہے کہ خلوص سے یہ عمل کیا جائے۔
اخلاص کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 736   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 318  
´مسجد بنانے کی فضیلت کا بیان۔`
عثمان بن عفان رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائی، تو اللہ اس کے لیے اسی جیسا گھر بنائے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 318]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ مثلیت کمیت کے اعتبار سے ہو گی،
کیفیت کے اعتبار سے یہ گھر اس سے بہت بڑھا ہوا ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 318   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1190  
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مسجد نبویﷺ کو نئے سرے سے تعمیر کرنا چاہا تو لوگوں نے اس کو پسند نہ کیا، ان کی خواہش تھی کہ وہ اسے اس کی حالت پر رہنے دیں تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے اللّٰہ کی خاطر کوئی مسجد بنائی، اللّٰہ اس کے لیے جنت میں اس قسم کا گھر تعمیر کرے گا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1190]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دور نبویﷺ میں آپﷺ کی مسجد انتہائی سادہ تھی دیواروں کو کچی اینٹوں سے بنا کر اس پر کھجورکی چھڑیوں کی چھت ڈال دی گئی تھی اور اس کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے،
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو وسیع کیا تو اس میں اس میٹریل کو بدل دیا۔
دیواریں تراشیدہ پتھروں سے چونا گچ کر کے بنائیں اور ستون بھی تراشیدہ پتھروں سے استوار کیے اور چھت ساگوان کی عمدہ لکڑی کی ڈالی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے سامان کی عمدگی اور تبدیلی پر اعتراض کیا ان کا خیال تھا کہ مسجد پہلے دور کی طرح سادہ ہی تعمیر کی جائے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نئے تعمیر شدہ مکانات کا لحاظ رکھتے ہوئے اعلیٰ اور عمدۃ مواد استعمال کیا اور فرمایا:
میں نے اس لیے اس کو اتنا اعلیٰ و عمدہ اور حسین و جمیل بنایا ہے تاکہ اللہ مجھے قیامت میں میرے اس ذوق و شوق کے مطابق اعلیٰ اور عمدہ گھر دے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1190   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7471  
محمود بن لبید کہتے ہیں،حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کا ارادہ کیا،تو لوگوں نے اس کوناپسند کیا اور چاہا کہ وہ اسے اس کی شکل وصورت میں رہنے دیں،توانہوں نےکہا،میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے،"جو اللہ کے لیے مسجد بنائےگا،اللہ اس کےلیے ویساہی جنت میں(گھر) بنائےگا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7471]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مِثله ویسا ہی کا یہ معنی نہیں ہے،
اس حجم اور پیمائش کا،
یا اس جیسے مسالہ کا،
بلکہ مراد ہے،
جس حسن نیت اور عمدگی سے بنائے گا،
اس طرح اس کو اعلیٰ اور عمدہ جنت کا گھر ملے گا،
کیونکہ جنت کی نظیر و تمثیل تو دنیا میں ہےہی نہیں اور نہ ہوسکتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7471   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7471  
محمود بن لبید کہتے ہیں،حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کا ارادہ کیا،تو لوگوں نے اس کوناپسند کیا اور چاہا کہ وہ اسے اس کی شکل وصورت میں رہنے دیں،توانہوں نےکہا،میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے،"جو اللہ کے لیے مسجد بنائےگا،اللہ اس کےلیے ویساہی جنت میں(گھر) بنائےگا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7471]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مِثله ویسا ہی کا یہ معنی نہیں ہے،
اس حجم اور پیمائش کا،
یا اس جیسے مسالہ کا،
بلکہ مراد ہے،
جس حسن نیت اور عمدگی سے بنائے گا،
اس طرح اس کو اعلیٰ اور عمدہ جنت کا گھر ملے گا،
کیونکہ جنت کی نظیر و تمثیل تو دنیا میں ہےہی نہیں اور نہ ہوسکتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7471   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:450  
450. حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے، جب انھوں نے مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی تو لوگ اس کے متعلق مختلف باتیں کرنے لگے۔ تب انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص مسجد بنائے اور اس کا مقصود محض اللہ کو راضی کرنا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس جیسا گھر جنت میں بنا دیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:450]
حدیث حاشیہ:

تعمیر مسجد کی دوصورتیں ہیں:
۔
مسجد کو شروع ہی سے تعمیر کیا جائے۔
۔
اس کی توسیع یا تجدید کی جائے۔
مذکورہ بالادونوں صورتوں میں بانی کو تعمیر مسجد کی فضیلت حاصل ہوگی۔
اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے اسی طرح کا محل تیار کرے گا۔
یہاں ایک اشکال ہے کہ دیگر اعمال خیر کا اجر دس گنا ہوتا ہے۔
لیکن مسجد بنانے کا اجر اس کے مثل یا برابر کیوں ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں مثلیت سے زیادہ کی نفی نہیں، نیز ہر عمل کے اجر میں برابری تو عدل ہے اور کم وکیف میں زیادتی اللہ تعالیٰ کا محض فضل وکرم ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ایک عمدہ جواب دیا ہے کہ مسجد بنانے کی جزا میں گھر تو جنت میں ایک ہی ملے گا مگر وہ کیفیت میں اس دنیا کے گھر سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔
بعض اوقات دنیا میں بھی ایک گھر دوسرے ایک سوگھروں سے بھی زیادہ عالی شان اور پُر شکوہ ہوتا ہے۔
علامہ نووی ؒ نے فرمایا:
ممکن ہے کہ اس گھر کی فضیلت جنت کے گھروں پر ایسی ہوجیسے دنیا میں مسجد کی فضیلت دنیا کے باقی گھروں پر ہوتی ہے۔
بہرحال جنت میں ملنے والا گھر بہت وسیع اور بہترین ہوگا اورمثلیت سے مراد مساوات من کل الوجوہ نہیں،نیز اس میں واضح اشارہ ہے کہ بانی کو جنت میں داخلہ ملے گا کیونکہ گھر بنانے سے مقصود اس میں رہائش رکھنا ہوتا ہے اوررہائش دخول جنت کے بعد ہوگی۔
(فتح الباري: 706/1)

حضرت عثمان ؓ پر مسجد نبوی کی توسیع کے متعلق متعدد اعتراضات کیے گئے، مثلاً:
اگر مسجد کی موجودہ صورت بہتر ہوتی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء اس کے زیادہ حقدار تھے۔
مسلمانوں کی اجازت کے بغیر مذکورہ توسیع بیت المال کے خزانے سے کی جارہی ہے جو درست نہیں۔
یہ کام اللہ کی رضا کے لیے نہیں بلکہ محض نام ونمود اورشہرت پسندی کے پیش نظر کیاجارہا ہے۔
حضرت عثمان ؓ نے ایک ہی مسجد نبوی سے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے:
‎۔
میں نے یہ کام رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے کیا ہے، کیونکہ آپ کا فرمان ہے کہ اگر کوئی اللہ کی رضا کے لیے مسجد تعمیر کرےگا تو اللہ اسے جنت میں اس کے ہم مثل گھر عطا فرمائے گا۔
معلوم ہوا کہ جنت میں ہم مثل جزا لینے کے لیے مسجد بنانے کی اجازت ہے۔
۔
اس حدیث میں جنت کا مکان حاصل کرنے کی بشارت اس شخص کو دی گئی ہے جو خود تعمیر کرے۔
میں یہ بھی کام حصول جنت کے لیے کررہا ہوں۔
لہذا بیت المال سے مسجد کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس سے پہلے بھی آپ نے مسجد کے لیے قطعہ ارض خرید کر دیاتھا۔
۔
اس روایت میں ہے کہ جس نےرضائے الٰہی کے حصول کے لیے مسجد تعمیر کی تو اسے جنت میں اس کا مثل عطا کیا جائے گا۔
میں اسی عظیم مقصد کے کے لیے یہ کام کررہا ہوں۔
اس لیے تمھیں نیت پر حملہ کرنے کا کوئی حق نہیں، تم میرے دل کی باتوں کو نہیں جانتے۔
الغرض حضرت عثمان ؓ نے ایک ہی حدیث سے تمام اعتراضات کا شافی جواب دے دیا۔
علامہ ابن جوزی ؒ نے لکھا ہے کہ جو شخص مسجد بنواکر اس پر اپنا نام کندہ کرادیتا ہے وہ مخلص نہیں بلکہ نمودونمائش اور ریاکاری کا خوگر ہے، کیونکہ حدیث میں جس ثواب کی بشارت دی گئی ہے، اس میں للّٰہیت بنیادی شرط ہے۔
اگر کوئی مزدوری کے عوض مسجد تعمیر کرتا ہے تو وہ مذکورہ بشارت کا حقدار نہیں ہوگا، اگرچہ حدیث میں دی گئی بشارت کے علاوہ ثواب سے تومحروم نہیں کیا جائے گا۔
حدیث میں ہے کہ تیر کی وجہ سے تین آدمی جنت میں داخل ہوں گے:
بنانے والا، چلانے والا اور اس کے لیے سامان مہیا کرنے والا۔
اس میں بنانے والے کےمتعلق وضاحت نہیں ہے کہ وہ مزدوری کےعوض بنائے یافی سبیل اللہ بناکرمجاہد کے حوالے کردے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی مملوکہ زمین کےٹکڑے کو مسجد کا درجہ دے دیتا ہے، پھر وہاں عمارت بنائے بغیر لوگ نماز ادا کرتے ہیں، یا کوئی تیار شد ہ عمارت کو مسجد کا درجہ دےدیتا ہے تو اسے بھی مذکورہ فضیلت حاصل ہوگی یا ہیں؟ظاہری الفاظ کے پیش نظر تو وہ اس فضیلت کا حق دار نہیں ہوگا، کیونکہ اس میں مسجد کی تعمیر نہیں ہوئی لیکن اگر مقصود کو پیش نظر رکھا جائے تو ایسا شخص بھی مذکورہ ثواب سے محروم نہیں ہوگا۔
اسی طرح بنانے سے مراد خود تعمیر کرنے والا اور تعمیر کا حکم دینے والا دونوں ہی میں اور دونوں ہی بشارت مذکورہ کے حقدار ہیں۔
(فتح الباري: 706/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 450