سنن ابن ماجه
كتاب الأذان والسنة فيه
کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن
6. بَابُ : إِفْرَادِ الإِقَامَةِ
باب: اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 729
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ:" الْتَمَسُوا شَيْئًا يُؤْذِنُونَ بِهِ عِلْمًا لِلصَّلَاةِ، فَأُمِرَ بِلَالٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ، وَيُوتِرَ الْإِقَامَةَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو ایسی چیز کی تلاش ہوئی جس کے ذریعہ لوگوں کو نماز کے اوقات کی واقفیت ہو جائے، تو بلال رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو بار، اور اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 1 (603)، 2 (605)، 3 (606)، صحیح مسلم/الصلاة 2 (378)، سنن ابی داود/الصلاة 29 (508)، سنن الترمذی/الصلاة 27 (193)، سنن النسائی/الأذان 2 (628)، (تحفة الأشراف: 943)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/103، 189)، سنن الدارمی/الصلاة 6 (1230) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اقامت کے کلمات ایک ایک بار بھی کہے تو کافی ہے، کیونکہ اقامت حاضرین کو سنانے کے لئے کافی ہوتی ہے، اس میں تکرار کی ضرورت نہیں، اور عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث (طحاوی اور ابن ابی شیبہ) یہ ہے کہ فرشتے نے اذان دی، دو دو بار اور اقامت کہی دو دو بار، مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہنا کافی نہیں، اور محدثین کے نزدیک تو دونوں امر جائز ہیں، انہوں نے کسی حدیث کے خلاف نہیں کیا، لیکن حنفیہ پر یہ الزام قائم ہوتا ہے کہ افراد اقامت کی حدیثیں صحیح ہیں، تو افراد کو جائز کیوں نہیں سمجھتے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 729 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث729
اردو حاشہ:
فائدہ:
واقعے کی تفصیل کے لیے گزشتہ صفحات میں حدیث:
(709، 708، 709)
ملاحظہ کیجیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 729
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3457
3457. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: (نماز کے اعلان کے لیے) صحابہ کرام ؓ نے آگ جلانےاور ناقوس بجانے کا مشورہ دیا۔ کچھ حضرات نے کہا: یہ تو یہود و نصاریٰ کا طریقہ ہے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اذان میں کلمات دو دو بار اور اقامت میں ایک ایک بار کہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3457]
حدیث حاشیہ:
عبادت کےلیے آگ جلاکریاناقوس بجاکر لوگوں کوبلانا آج بھی اکثر ادیان کامعمول ہے۔
اسلام نےاس طریقہ کوناپسند کرکے اذان کا بہترین طریقہ جاری کیاجو پانچ اوقات فضائے آسمانی میں پکار کرکہی جاتی ہے، جس میں عقیدہ توحید ورسالت کا وجد آور اعلان ہوتاہے اوربہترین لفظوں میں مسلمانوں کو عبادت کےلیے بلایا جاتاہے۔
روایت میں یہود و نصاری کاذکر ہے یہی باب سے مناسبت ہے۔
روایت میں اکہری تکبیر کہنے کا ذکر صاف لفظوں میں موجود ہے،مگر اس زمانہ میں اکثر برادران ملت، اکہری تکبیرسن کر سخت نفرت کا اظہار کرتےہیں جوان کی نا واقفیت کی کھلی دلیل ہے، اکہر تکبیر سنت نبوی ہے اس سے انکار ہرگز جائز نہیں ہے، اللہ پاک ہمارے محترم برادران کوتوفیق دےکہ وہ ایسا غلط تعصب دلوں سےدور کردیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3457
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3457
3457. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: (نماز کے اعلان کے لیے) صحابہ کرام ؓ نے آگ جلانےاور ناقوس بجانے کا مشورہ دیا۔ کچھ حضرات نے کہا: یہ تو یہود و نصاریٰ کا طریقہ ہے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اذان میں کلمات دو دو بار اور اقامت میں ایک ایک بار کہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3457]
حدیث حاشیہ:
1۔
عبادت کے لیے آگ جلانا یا ناقوس بجانا آج بھی اکثر ادیان کا معمول ہے۔
چند سال پہلے مساجد میں نقارہ دیکھا ہوتا تھا جو جمعہ اور افطاری کے وقت بجایا جاتا ہے۔
یہ بھی یہودیوں کی غیر شعوری طور پر تقلید تھی جو رفتہ رفتہ ختم ہوگئی ہے۔
2۔
اسلام نے عبادت اور نماز کی دعوت کے لیے اذان کا بہترین طریقہ جاری کیا جو پانچ وقت بآواز بلند کہی جاتی ہے اس میں عقیدہ توحید و رسالت کا بار بار اعلان ہوتاہے۔
3۔
اس روایت میں یہود و نصاریٰ کے ایک پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے حالات بنی اسرائیل کے تحت اس حدیث کو ذکر کیاہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3457