Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
أبواب التيمم
کتاب: تیمم کے احکام و مسائل
122. . بَابُ : النَّهْيِ عَنْ إِتْيَانِ الْحَائِضِ
باب: حائضہ عورت سے جماع منع ہے۔
حدیث نمبر: 639
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَتَى حَائِضًا، أَوِ امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا، أَوْ كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حائضہ کے پاس آئے (یعنی اس سے جماع کرے) یا عورت کے پچھلے حصے میں جماع کرے، یا کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے، تو اس نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطب 21 (3904)، سنن الترمذی/الطہارة 102 (135)، الرضاع 12 (1164)، (تحفة الأشراف: 13536)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/86، 6/305)، سنن الدارمی/الطہارة 114 (1176) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ظاہر میں یہاں ایک اشکال ہے، وہ یہ کہ حیض کی حالت میں جماع کرنا حرام ہو گا، پھر اس سے کفر کیوں لازم آئے گا؟ بعضوں نے یہ جواب دیا ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو حیض کی حالت میں جماع کو حلال سمجھ کر جماع کرے، اسی طرح دبر میں جماع کرنے کو حلال سمجھ کر ایسا کرے، ایسا شخص تو ضرور کافر ہو گا، اسی طرح وہ شخص جو کاہن اور نجومی کی تصدیق کرے وہ بھی کافر ہو گا، کیونکہ اس نے غیب کا علم اللہ کے علاوہ دوسرے کے لئے ثابت کیا، اور یہ قرآن کے خلاف ہے، نجومی کا جھوٹا ہونا قرآن سے ثابت ہے:  «قل لا يعلم من في السماوات والأرض الغيب إلا الله» کہہ دیجئے کہ آسمان اور زمین میں سے اللہ کے علاوہ کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا (النمل:65)  «وما تدري نفس ماذا تكسب غدا» اور کسی بھی نفس کو یہ نہیں معلوم ہے کہ وہ کل کیا کمائے گا (لقمان:34) ہو سکتا ہے کہ اس حدیث میں کفر سے لغوی کفر مراد ہو نہ کہ شرعی، جس نے ایسی حرکتیں کیں اس نے گویا شریعت محمدی کا انکار کیا، یا بطور تشدید اور تغلیظ کے فرمایا تاکہ لوگ ان چیزوں کے کرنے سے باز رہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 639 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث639  
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں جن کاموں سے منع کیا گیا ہے وہ سب حرام ہیں۔

(2)
ان اعمال کے مرتکب افراد کو شریعت اسلامی کے ساتھ کفر کرنے والے قرار دیا گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کافروں کے کام ہیں مسلمانوں کو ایسے کاموں سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔

(3)
اللہ نے عورت سے مباشرت کا ایک فطری طریقہ مقرر کیا ہے جس کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوتی ہے۔
پاخانے (دبر)
کا راستہ اس مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا ہے یہ غیر فطری طریقہ ہے جس میں حضرت لوط علیہ السلام کی بدکردار قوم سے مشابہت پائی جاتی ہے۔

(4)
بعض لوگوں نے عورتوں سے خلاف فطرت فعل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے۔
اس کے لیے اس آیت سے استدلال کیا ہے:
﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ﴾ (البقرۃ: 2؍223)
تمھاری عورتیں تمھارے لیے کھیتی (کی طرح)
ہیں تم اپنی کھیتی میں آؤ جیسے چاہو۔
ان کا یہ استدلال درست نہیں کیونکہ
(ا)
عورت کو کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
کھیت وہی ہوتا ہے جہاں بیج ڈالا جائے تو اگے، پاخانے کا راستہ اس قابل نہیں۔
پیدائش کا تعلق اگلے راستے سے ہی ہے۔

(ب)
ایام حیض میں آگے کے راستے سے بھی پر ہیز کا حکم دیا گیا ہےاور وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ نجاست ہے۔
دوسرا راستہ تو صرف نجاست ہی کے لیے ہے وہ کیسے حلال ہوسکتا ہے۔

(ج)
اگر ﴿أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ﴾ کا ترجمہ جہاں سے چاہو کیا جائے تو بھی اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پیچھے کے رخ سے ہو کر آگے کے مقام میں دخول کرے تو جائز ہے جس طرح براہ راست آگے کے رخ سے دخول جائز ہے جیسے کہ حدیث میں اسکی وضاحت ہے۔ دیکھیے: (صحيح مسلم، النكاح، باب جواز جماعة امرأته في قبلها، من قدامها ومن ورائها، من غير تعرض للدبر، حديث: 1435)

کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو غیب کی باتیں جاننے کا دعوی رکھتا ہے یا مستقبل کے بارے میں بتاتا ہے۔
ہمارے ہاں جو نجوم، رمل، جفر کے نام سے قسمت بتانے کا دعوی کرتے ہیں وہ سب اس وعید میں شامل ہیں۔
ان کی بتائی ہوئی کوئی بات سچ ثابت ہوجائے تو بھی ان لوگوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے پاس جاکر کچھ پوچھنا ہی گناہ ہے اگرچہ ان کی بتائی ہوئی بات پر یقین نہ کرے۔
ارشاد نبوی ہے:
جو کسی کاہن کے پاس گیا اور اس سے کوئی بات پوچھی تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم، السلام، باب تحریم الکھانة واتیان الکھان، حدیث: 2230)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 639   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1923  
´عورتوں سے دبر میں جماع کرنے کی ممانعت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنی عورت سے اس کے دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1923]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُ‌وجِهِمْحَافِظُونَ ﴿5﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ‌ مَلُومِينَ﴾ (المومنون: 5، 6)
اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
سوائے اپنی بیویوں یا ان (کنیزوں)
کے جن کے مالک ہوئے ان کے دائیں ہاتھ تو بلا شبہ (ان کی بابت)
ان پر کوئی ملامت نہیں۔
اس سے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عورتوں سے جس طرح چاہیں لطف اندوز ہو سکتے ہیں، خواہ آگے کی جگہ ہو یا پیچھے کی جگہ لیکن یہ بات صحیح نہیں بلکہ جماع کے لیے ایک ہی مقام جائز ہے، ایام حیض میں وہ بھی جائز نہیں رہتا۔

(2)
اللہ اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔
اس کا مطلب ہے رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا اور قیامت کے دن اس کا یہ جرم معاف نہیں کرے گا۔
اس سے اس فعل کی حرمت ظاہر ہوتی ہے۔
دوسری حدیث میں اس فعل کا ارتکاب کرنے والے پر لعنت بھی وارد ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
جو شخص بیوی سے دبر میں مجامعت کرتا ہے، وہ ملعون ہے۔ (سنن ابی داؤد، النکاح، باب فی جامع النکاح، حدیث: 2162)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1923   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 135  
´حائضہ سے جماع کے جائز نہ ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی حائضہ کے پاس آیا یعنی اس سے جماع کیا یا کسی عورت کے پاس پیچھے کے راستے سے آیا، یا کسی کاہن نجومی کے پاس (غیب کا حال جاننے کے لیے) آیا تو اس نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد (صلی الله علیہ وسلم) پر نازل کی گئی ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 135]
اردو حاشہ:
1؎:
آپ کا یہ فرمانا تغلیظاً ہے جیسا کہ خود امام ترمذی نے اس کی وضاحت کردی ہے۔
نوٹ:
(سند میں حکیم الأثرم میں کچھ ضعف ہے،
تعدد طرق کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے،
الإرواء: 2006)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 135