سنن ابن ماجه
أبواب التيمم
کتاب: تیمم کے احکام و مسائل
95. بَابٌ في الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ
باب: غسل جنابت میں سر کیسے دھلے؟
حدیث نمبر: 576
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ جَمِيعًا، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ ، عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ،" أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ عَنِ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ؟ فَقَالَ: ثَلَاثًا، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنْ شَعْرِي كَثِيرٌ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَكْثَرَ شَعْرًا مِنْكَ وَأَطْيَبَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے غسل جنابت کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: تین بار (سارے جسم پر پانی بہائیں) تو وہ کہنے لگا: میرے بال زیادہ ہیں، اس پر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے زیادہ بال والے تھے، اور تم سے زیادہ پاک و صاف رہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «(تفرد بہ ابن ماجہ) (صحیح)» (اس سند میں عطیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن ابو ہریرہ کی اگلی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، یہ حدیث تحفة الاشراف میں «فضيل بن مرزوق عن عطية عن أبي سعيد» کے زیر عنوان موجود نہیں ہے، اور نہ ہی ابن حجر نے «النكت الظراف» میں اس پر کوئی استدراک کیا ہے، اور نہ ہی یہ مصباح الزجاجة میں موجود ہے لیکن «غاية المقصد في زوائد المسند (ق 37)» میں موجود ہے، ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ابن ماجہ کے قدیم نسخوں میں یہ حدیث موجود نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عطية العوفي ضعيف الحفظ مشھور بالتدليس القبيح (انظر ضعيف سنن أبي داود: 452) وفضيل يروي عن عطية الموضوعات قاله ابن حبان في المجروحين (2/ 209)
والحديث الآتي (الأصل: 577) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 399
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 576 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث576
اردو حاشہ: 1۔
وہ تم سے زیادہ پاکیزہ تھے اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تم سے زیادہ صفائی اور طھارت کا اہتمام کرنے والے تھے۔
اس کے باوجود تین لپ پانی آپ کے لیے کافی ہوتا تھا”اس لیے تمھارے لیے بھی یہ کافی ہونا چاہیے۔
دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ نبی ﷺ کے بال تجھ سے زیادہ پاک تھے کیونکہ نبی ﷺ طہارت کا کوب کیال رکھتے تھے۔
بہر حال دونوں انداز سے نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ صفائی کے لیے زیادہ پانی ضائع کرنا ضروری نہیں۔
مناسب طریقے سے سر دھویا جائے تو تھوڑا پانی بھی کفایت کرسکتا ہے۔ 2۔
مذکورہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے لیکن معناً صحیح ہے کیونکہ بعد والی صحیح روایت میں یہی بات بیان کی گئی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 576