سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
65. بَابُ : الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ
باب: آگ میں پکی ہوئی چیزوں کے استعمال سے وضو کا بیان۔
حدیث نمبر: 485
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" تَوَضَّئُوا مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ"، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَتَوَضَّأُ مِنَ الْحَمِيمِ؟ فَقَالَ لَهُ: يَا ابْنَ أَخِي إِذَا سَمِعْتَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا فَلَا تَضْرِبْ لَهُ الْأَمْثَالَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ پر پکی ہوئی چیزوں کے استعمال سے وضو کرو“، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا ہم گرم پانی استعمال کرنے سے بھی وضو کریں؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بھتیجے! جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سنو تو اس پر باتیں مت بناؤ“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطہارة 58 (79)، (تحفة الأشراف: 15030)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحیض 23 (351)، سنن ابی داود/الطہارة 76 (194)، سنن النسائی/الطہارة 122 (171)، مسند احمد (2/458، 503، 529) ومضی مختصرا برقم: (22) دون ''توضؤوا'' (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اس بات پر سخت تنبیہ ہے کہ حدیث رسول سن کر کسی طرح کی ٹال مٹول کی جائے، آج جن لوگوں نے اپنا وطیرہ یہ بنایا ہوا ہے کہ جب تک اقوال ائمہ نہ پائیں اس وقت تک ان کے دلوں کو تسکین نہیں ہوتی ان کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔
قال الشيخ الألباني: حسن دون توضؤوا وهذا رواه م
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 485 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث485
اردو حاشہ:
(1)
جس چیز میں آگ تبدیلی کردے اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے آگ پر پکا کر یا بھون کر تیار کیا گیا ہو۔
(2)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ یہ حکم وجوبی نہیں ہے کیونکہ انھوں نے خود رسول اللہ ﷺ کو گوشت کھا کر دوبارہ وضو کیے بغیر نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
اس لیے انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کے لیے سوال کیا۔
لیکن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے غالباً آپ ﷺ کا یہ عمل نہیں دیکھا اس لیے وہ اپنے موقف پر قائم رہے یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس اجازت کا علم تو ہو لیکن وہ چاہتے ہوں کہ لوگ افضلیت کو اختیار کریں۔
(3)
جب حدیث میں کسی حکم کو عام رکھا گیا ہو تو اسے عام ہی سمجھنا چاہیے حتی کہ دوسرے دلائل سے معلوم ہوجائے کہ فلاں صورت اس عموم میں شامل نہیں۔
(4)
آئندہ باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکم وجوبی نہیں یعنی آگ کی پکی ہوئی چیز کھا پی کروضو کرنا لازم نہیں بہتر اور افضل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 485
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 788
عبداللہ بن ابراہیم بن قارظ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مسجد میں وضو کرتے ہوئے پایا تو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا، میں تو پنیر کے ٹکڑے کھانے سے وضو کر رہا ہوں کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے، ”آگ پر پکی چیز سے وضو کرو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:788]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَثْوَار:
ثَوْرٌ کی جمع،
ٹکڑے۔
(2)
أَقِطٍ:
پنیر۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 788