Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
58. بَابُ : مَا جَاءَ فِي النَّضْحِ بَعْدَ الْوُضُوءِ
باب: وضو کے بعد ستر پر چھینٹے مارنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 461
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، قَالَ، قَالَ مَنْصُورٌ حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ سُفْيَانَ الثَّقَفِيِّ ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" تَوَضَّأَ ثُمَّ أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَنَضَحَ بِهِ فَرْجَهُ".
حکم بن سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، پھر ایک چلو پانی لے کر شرمگاہ پر چھینٹا مارا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطہارة 64 (166)، سنن النسائی/الطہارة 102 (134)، (تحفة الأشراف: 3420)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/ 410، 4/179، 212، 5/408، 409) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: تاکہ ستر (شرمگاہ) پر پیشاب کا خطرہ ہونے کا وسوسہ ختم ہو جائے، یہ وسوسہ دور کرنے کی ایک اچھی تدبیر ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سکھایا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 461 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث461  
اردو حاشہ:
(1)
یہ عمل وضو کا حصہ نہیں تاہم وضو کے بعد ایسا کرنا سنت ہے۔

(2)
جسم کے خاص حصے (شرم گاہ)
پر پانی چھڑکنے کا مطلب اس کپڑے پر پانی کے چھینٹے ڈالنا ہے جس سے جسم کا وہ حصہ چھپا ہوا ہے۔

(3)
علمائے کرام نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ اس سے پیشاب کا قطرہ نکل جانے کے وسوسے کا ازالہ ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 461   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 92  
´پیشاب سے فراغت کے بعد عضو مخصوص کو تین مرتبہ سوتنا یا جھاڑنا`
«. . . وعن عيسى بن يزداد (برداد) ‏‏‏‏ عن ابيه رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إذا بال احدكم فلينتر ذكره ثلاث مرات . . .»
. . . سیدنا عیسیٰ بن یزدار نے اپنے والد سے روایت بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی پیشاب کرے تو عضو مخصوص کو تین مرتبہ جھاڑ لے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 92]
لغوی تشریح:
«فَلْيَنْتُرْ» نتر سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد عضو مخصوص کو کھینچ کر نچوڑ لے، یعنی زور سے دبا کر کھینچے تاکہ اس کے اندر پیشاب کے جو قطرات باقی ہیں، وہ نکل جائیں۔ بعض نسخوں میں «فَلْيَنْتُرْ» کی بجائے «فَلْيَنْثُرْ» کے الفاظ ہیں، یعنی تا کی بجائے ثا ہے۔ تاہم مفہوم دونوں کا تقریباً ایک ہی ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ پیشاب سے فراغت کے بعد عضو مخصوص کو تین مرتبہ سوتنا یا جھاڑنا اس لیے ہے کہ اگر قابل خارج قطرہ پیشاب کہیں رک گیا ہو تو وہ خارج ہو جائے اور پوری طرح اطمینان ہو جائے۔
➋ یہ روایت گو ضعیف ہے مگر پیشاب کے قطروں سے محفوظ رہنے کی روایت اس کی مؤید ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ انھیں عذاب قبر اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ پیشاب کے قطروں سے بچتے نہ تھے۔

راویٔ حدیث: (عیسیٰ بن یزداد) یہ دونوں باپ بیٹا مجہول ہیں۔ ابن معین کہتے ہیں: عیسیٰ اور اس کے باپ کی کوئی جان پہچان نہیں ہے۔ عقیلی کہتے ہیں: ان کی متابعت نہیں کی گئی اور نہ ان کا تعارف ہے۔ یزداد کو یا اور زا کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور با اور را سے بھی پڑھا گیا ہے، یعنی برداد۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 92   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 168  
´وضو کے بعد شرم گاہ والی جگہ پر چھینٹے مارنا`
«. . . ابْنِ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِيهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَنَضَحَ فَرْجَهُ . . .»
. . . حکم یا ابن حکم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا، اور اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 168]
فوائد و مسائل:
وضو کے بعد شرم گاہ والی جگہ پر چھینٹے مار لینا مسنون و مستحب ہے۔ سنت پر ثواب کے علاوہ یہ فائدہ بھی ہے کہ مثانہ کی کمزوری کے باعث بعض اوقات قطرات آ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اس سے وسواس کا دفعیہ (خاتمہ) ہو جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 168   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 134  
´پانی چھڑکنے کا بیان۔`
سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تھے تو ایک چلو پانی لیتے اور اس طرح کرتے، اور شعبہ نے کیفیت بتائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی شرمگاہ پر چھڑکتے، (خالد بن حارث کہتے ہیں) میں نے اس کا ذکر ابراہیم سے کیا تو انہیں یہ بات پسند آئی۔ ابن السنی کہتے ہیں کہ حکم سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 134]
134۔ اردو حاشیہ:
➊ شرم گاہ پر چھینٹے مارنا وضو کا حصہ نہیں ہے، تاہم مسنون عمل ہے۔
➋ اس عمل کی حکمت یہ ہو سکتی ہے کہ کبھی انسان کو کسی مرض وغیرہ کی وجہ سے یہ شبہ پڑ جاتا ہے کہ پیشاب کا کوئی قطرہ نکلا ہے، ایسا انسان معذور ہے، لہٰذا اس عذر کے پیش نظر یا شبہ دور کرنے کے لیے یہ طریقہ تجویز کیا گیا کہ وضو کے بعد شرم گاہ پر چھینٹے مارے جائیں تو شبہ دور ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
➌ جس آدمی کو مندرجہ بالا صورت حال پیش آئے وہ ایسا کر لے اور جسے یہ صورت پیش نہ آئے اس کے لیے بھی چلو بھر پانی سے چھینٹے مارنا مسنون ہے کیونکہ مذکورہ وجہ اور علت حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
➍ بعض محققین کا خیال ہے کہ وہ آدمی جو تندرست ہو اور سلس البول کا مریض بھی نہ ہو، اور پیشاب سے اچھی طرح فراغت کے بغیر ہی کھڑا ہو جاتا ہو، نیز اسے وضو کرنے کے بعد یا اثنائے نماز قطرہ گرنے کا یقین بھی ہو تو ایسے آدمی کو چھینٹے کفایت نہ کریں گے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پیشاب سے آلودہ مقام دھوئے اور پھر وضو کر کے نماز پڑھے کیونکہ پیشاب نجس ہے، خواہ وہ قطرہ ہو یا اس سے زیادہ۔ دلائل کے اعتبار سے یہ موقف مضبوط اور راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
«تَوَضَّأَ» کے معنی ہوں گے، جب وضو سے فارغ ہوتے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 134   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 135  
´پانی چھڑکنے کا بیان۔`
حکم بن سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، اور اپنی شرمگاہ پر پانی کا چھینٹا مارا۔ احمد کی روایت میں «و نضح فرجه» کی جگہ «فنضح فرجه» ہے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 135]
135۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنے دو اساتذہ عباس بن محمد دوری اور احمد بن حرب سے بیان کی ہے جیسا کہ سند پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا الفاظ سے امام صاحب کا مقصد یہ ہے کہ میرے ایک استاذ نے «ونَضَحَ فَرْجَهُ» کہا:، جب کہ دوسرے استاد نے «فَنَضَحَ فَرْجَهُ» کہا:۔ گویا واو اور فاء کا فرق ہے۔ فء ترتیب کا تقاضا کرتی ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام وضو کی تکمیل کے بعد کیا۔ واو میں یہ مفہوم نہیں ہوتا۔ ایسے باریک اختلافات کو ضبط کرنا محدثین کی امانت و دیانت اور محنت شاقہ کی واضح دلیل ہے۔ رحمھم اللہ رحمة واسعة۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 135