سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
49. بَابُ : مَا جَاءَ فِي إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ
باب: اچھی طرح وضو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 427
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يُكَفِّرُ اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَزِيدُ بِهِ فِي الْحَسَنَاتِ"؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا اور نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے؟“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ کے رسول! ضرور بتائیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ناپسندیدگی کے باوجود مکمل وضو کرنا ۱؎، اور مسجدوں کی جانب دور سے چل کر جانا ۲؎، اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4046، ومصباح الزجاجة: 176)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطھارة 39 (51)، مسند احمد (3/3، 16، 95)، دي الطہارة 30 (725) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی سخت سردی اور بیماری کے باوجود (جس میں پانی کا استعمال سخت ناپسندیدہ کام ہوتا ہے)، مکمل وضو کرنا۔ ۲؎: یہ مسجد سے گھر دور ہونے کی صورت میں حاصل ہو گا، اسی طرح اس سے مراد بار بار مسجد جانا بھی ہو سکتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 427 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث427
اردو حاشہ:
(1)
نیک اعمال سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں بشرطیکہ وہ خلوص کے ساتھ اور سنت کے مطابق ادا کیے گئے ہوں۔
(2)
مسجدوں کی طرف زیادہ قدم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر گھر مسجد سے دور ہو تب بھی مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کی جائے۔
اسی طرح بار بار مسجد میں جانا بھی زیادہ قدم اٹھانے میں شامل ہے یعنی نماز کے بعد مسجد سے باہر گھر یا بازار میں حلال روزی کمانے میں یا دوسری جائز مصروفیات میں مشغول ہوجائے اور دوسری نماز کا وقت آنے پر پھر مسجد کی طرف چل پڑے۔
اس سے بھی نیکیوں میں اضافہ اور گناہ معاف ہوتے ہیں۔
(3)
نماز کا انتظار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کاروبار یا دوسرے کاموں میں مصروف ہو کر نماز کو فراموش نہ کردے اور کوئی نماز بےوقت ادا کرے نہ ترک کرے۔
بلکہ کام کاج کے دوران بھی اس کی توجہ نماز کی طرف ہو تاکہ جونہی نماز کا وقت آئے وہ مسجد کی طرف چل دے۔
ایک روایت میں اسے سرحدوں کی حفاظت کا نام دیا گیا ہے گویا یہ بھی ایک قسم کا جہاد ہے۔ دیکھیے: (صحيح مسلم، الطهارة، باب فضل إسباغ الوضوء علي المكاره، حديث: 251)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 427
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث776
´نماز کے لیے چل کر مسجد جانے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس سے اللہ گناہوں کو معاف کرتا اور نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے؟“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: جی ہاں، ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دشواری و ناپسندیدگی کے باوجود پورا وضو کرنا، مسجدوں کی جانب دور سے چل کر جانا، اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 776]
اردو حاشہ:
یہ حدیث کتاب الطھارہ میں گزرچکی ہے۔ دیکھیے حدیث: 427)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 776