سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
48. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْقَصْدِ فِي الْوَضُوءِ وَكَرَاهِيَةِ التَّعَدِّي فِيهِ
باب: وضو میں میانہ روی کی فضیلت اور حد سے تجاوز کرنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 425
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ حُيَيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَعَافِرِيِّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَعْدٍ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ، فَقَالَ:" مَا هَذَا السَّرَفُ"؟ فَقَالَ: أَفِي الْوُضُوءِ إِسْرَافٌ؟ قَالَ:" نَعَمْ وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهَرٍ جَارٍ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیسا اسراف ہے؟“، انہوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8870، ومصباح الزجاجة: 174)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/221) (حسن)» (تراجع الألبانی: رقم: 110، سند میں ابن لہیعہ ضعیف، اور حیی بن عبداللہ صاحب وھم راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الارواء: 140، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 3292، وسلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4782)
وضاحت: ۱؎: ان احادیث سے وضو میں بھی فضول خرچی منع ہے، آج کل بلاوجہ پانی زیادہ بہانے کا رواج ہو گیا ہے، مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کا خاص خیال رکھیں، اور بلا ضرورت پانی نہ بہائیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن لهيعة عنعن
والحديث ضعفه الحافظ في التلخيص (144/1 ح 194 م) والبوصيري
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 393